الملك
كلمة (المَلِك) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعِل) وهي مشتقة من...
مجلس کو ختم کرکے ہر ایک کا الگ الگ ہو کر چلے جانا۔
تفرُّق: مجلس عقد کو ختم کرنا۔ اس کے موضوع کے مختلف ہونے کے اعتبار سے اس کے احکام بھی مختلف ہوتے ہیں، اس لیے باہم عقد کرنے والوں کی مجلس سے مفارقت (اٹھ جانے) کی وجہ سے مجلس کا اختیار بھی ساقط ہوجاتا ہے۔ خریدوفروخت کے ان معاملات میں جن کی صحت کے لیے مجلس ہی میں سامان کو اپنی تحویل میں لینے کی شرط لگائی جاتی ہے وہاں سامان کو اپنی تحویل میں لینے سے پہلے ہی مجلس سے اٹھ جانے کی وجہ سے عقد بھی باطل ہوجاتا ہے۔ وہ مفارقت (جدائی) جو بیع (کی تکمیل) کو لازم کرتی ہے اس سے مراد بدنی اعتبار سے مجلس سے جدا ہونا ہے نہ کہ قولی اعتبار سے۔ اور یہ جدائی مکانِ عقد کے مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف ہوتی ہے، اس میں عُرفِ عام کا اعتبار کیا جائے گا، لہذا جسے عرفِ عام میں لوگ مفارقت(جُدائی) سمجھتے ہیں اسی سے عقد طے پائی جائے گی اور جسے مفارقت نہ سمجھتے ہوں اس سے عقد لازم نہیں ہوگی، اس لیے کہ جس چیز کی تعریف شریعت نے پیش نہ کی ہو اور نہ ہی لغت میں اس کی کوئی تعریف پائی جاتی ہو تو اس کو جاننے کے لیے عرف کی طرف رجوع کیا جائے گا، چنانچہ اگر وہ باہم عقد ومعاہدہ کرنے والے گھر میں ہوں گے تو ان کی مفارقت گھر کے اندر سے صحن کی طرف جانے سے حاصل ہوجائے گی اور اگر وہ بازار یا صحرا میں ہوں گے تو اس میں مفارقت کی شکل یہ ہوگی کہ ان میں سے کوئی پشت پھیر کر تھوڑا چل پڑے۔ ایک قول یہ بھی ہے مفارقت اسی صورت میں پائی جائے گی جب خریدوفروخت کرنے والوں سے ایک دوسرے سے اتنی دور چلا جائے کہ اگر وہ عام آواز میں بغیر آواز بلند کیے بات کرے تو وہ اس کی بات نہ سُن سکے۔
تفرُّق: پھٹنا اور الگ ہونا۔ کہا جاتا ہے ’’تَفرَّقَ القَوْمُ، تَفَرُّقاً ‘‘ کہ لوگوں میں پھوٹ پڑ گئی اور وہ الگ ہوگئے۔ تفریق کا اصل معنی ایک چیز کو دوسرے سے الگ کرنا اور واضح کرنا ہوتا ہے۔ اس کی ضد ’تجمُّع، اور انضمام‘ آتی ہے، نیز آپسی دوری پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، جب دو لوگ ایک دوسرے سے دور ہو جائیں اور ایک دوسرے کے قریب نہ آئیں تو کہا جاتا ہے ’’تَفَرَّقَ الرَّجُلانِ ‘‘ کہ دونوں آدمی جدا ہوگئے۔