السلام
كلمة (السلام) في اللغة مصدر من الفعل (سَلِمَ يَسْلَمُ) وهي...
کسی شے کا ایسا مال ہونا جس سے نفع اٹھانا شرعاً جائز ہو۔
تقوُّم: کسی شے کا قیمت والا ہونا بایں طور کہ اس کا کوئی مالی عوض مقرر ہو، اور کسی بھی شے کا مالِ متقوِّم ہونے کے لیے اس میں دو صفتوں کا ہونا ضروری ہے: 1. تموُّل یعنی اس شے کا مال ہونا۔ 2. شرعی طور پر اس سے انتفاع کا جائز ہونا۔ وہ شے جو مالِ متقوم نہیں بن سکتی وہ دراصل کسی بھی مالی معاملے (بیع وفروخت) کو منعقد کرنے کے لیے درست نہیں ہوسکتی، نہ اس کی کوئی قیمت لگائی جاسکتی ہے اور نہ ہی مالیت، اور اگر کسی عقد میں اس طرح کی کوئی شے پائی جائے تو وہ عقد فاسد اور باطل ہو جائے گا۔ جیسے أمِّ وَلد مالِ متقوم نہیں ہے۔ أمّ وَلد اس باندی کو کہا جاتا ہے جو اپنے مالک کے بچے کو جنم دے۔ وہ اپنے مالک کے بچے کو جنم دینے سے پہلے ایک باندی تھی جس کی خرید و فروخت ممکن تھی، لیکن اپنے مالک کا بچہ جننے کے بعد وہ مال نہیں رہی چنانچہ اب اس کی خرید و فروخت نہیں ہوسکتی۔ اس کی مثال شراب اور خون بھی ہیں، کیوں کہ ان دونوں سے شرعی طور پر فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے۔
تَقوُّمْ:کسی چیز کی قیمت کا تعین کرنا۔ آپ کہتے ہیں: ’قَوَّمتُ الـمَتاعَ فَتَقَوَّمَ‘ یعنی میں نے سامان کی ایک معلوم قیمت مقرر کی، چنانچہ وہ قیمت والا ہوگیا۔ قوَّمَ السِّلْعَةَ کا معنی ہے سامان کا ریٹ اور قیمت لگانا۔