المحيط
كلمة (المحيط) في اللغة اسم فاعل من الفعل أحاطَ ومضارعه يُحيط،...
اللہ تعالی کے لیے ثابت شدہ صفات کی ہیئت کو بیان کرنا، یا ان کی حقیقت کے بارے میں سوال کرنا۔
تکییف یہ ہے کہ انسان اپنے ذہن ودماغ میں اپنے اندازے سےصفت کی کوئی کیفیت تصور کرے، خواہ یہ کیفیت مخلوق کی صفت پر قیاس کرنے کی شکل میں ہو جو کہ تمثیل ہے، یا دماغ میں کسی چیز کا اندازہ کرنے کے طور پر ہو جس تک وہ اپنے تصور اور فہم سے پہنچتا ہے، اور یہ سمعی اور عقلی دلیل کے ذریعہ ایک باطل عقیدہ ہے۔ سمعی دلائل یہ ہیں: اللہ تعالی کا ارشاد ہے:[وَلا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْماً]۔ ترجمہ: ’’علم کے اعتبار سے وہ اس کا احاطہ نہیں کرسکتے۔‘‘ اور ایک ارشاد ہے:[وَلا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْؤُولاً ]۔ ترجمہ:’’جس بات کی تجھے خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔‘‘ یہ بات معلوم ہے کہ ہمیں اپنے رب کی صفات کی کیفیت کا بالکل بھی علم نہیں ہے، کیوں کہ اللہ تعالی نے ہمیں ان صفات کے بارے میں تو بتایا ہے لیکن ان کی کیفیت کے بارے میں ہمیں کچھ نہیں بتایا۔ لھٰذا ہمارا ان کی کیفیت بیان کرنا اللہ تعالی کی نسبت ایسی بات کہنا ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہے، اور ایسی بات کہنا ہے جس کا ہم احاطہ نہیں کرسکتے۔ عقلی دلیل یہ ہے کہ کسی شے کی صفات کی کیفیت کا علم اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس کی ذات کی کیفیت کا علم ہوجائے، یا پھر اس کے ہم مثل اور مساوی کا علم ہوجائے، یا پھر اس کے بارے میں کوئی صادق شخص خبر دے۔ جب کہ یہ تمام طریقے اللہ عزوجل کی صفات کی کیفیت کو معلوم کرنے کے لیے موجود نھیں۔ لھٰذا ان کی کیفیت بیان کرنے کا بطلان ضروری ہے۔ پھر یہ بھی کہا جائے گا کہ: ’’آپ اپنے دماغ میں جس کیفیت کا بھی اندازہ کرتے ہیں تو اللہ تعالی اس سے بڑا اور برتر ہے۔‘‘ اس سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ اللہ کی صفات کے بارے میں جس چیز کی نفی کی گئی ہے وہ تکییف (یعنی اس کی کیفیت بیان کرنا) ہے نہ کہ خود کیفیت؛ کیونکہ ہر صفت کی ایک کیفیت ہوتی ہے، لیکن ہم کیفیت کا علم نہیں رکھتے ہیں۔
تَکْیِیْفْ: یہ ’کَیْف‘ سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے: ’ہیئت، ماہیت اور شکل‘۔ تکییف کا معنی ہے ’صفات کی کیفیت، ان کی شکل یا ہیئت، جیسے ان کی لمبائی، چوڑائی اور حجم وغیرہ بیان کرنا‘۔