السبوح
كلمة (سُبُّوح) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فُعُّول) من التسبيح،...
ہر وہ تصرف (اقدام) جو کسی کو اسلام یا اس کی کسی بھی چیز کی پابندی کرنے سے باز رہنے پر آمادہ کرے۔
اسلام رحم و شفقت، حکمت اور نرمی کا مذہب ہے، یہ نفرت پھیلانے والے اور اس کے صاف ستھرے چہرے کو بگاڑنے والے لوگوں کی جفا اور تساہل کرنے اور رخصتوں کو اپنانے میں غلو کرنے والے لوگوں کے مابین ایک معتدل مذہب ہے۔ ’تنفیر‘ سے مراد کسی شخص کے ساتھ ایسے قول یا فعل کے ذریعہ تعامل کرنا جو اسے اسلامی تعلیمات یا اس کی بعض چیزوں سے دور ہونے پر آمادہ کرے، چاہے اس کا یہ عمل قصداً ہو یا بغیر ارادے کے ہو۔ ’تنفیر‘ کے سب سے بڑے اسباب میں سے: دین اور اس کے اصولوں سے ناواقفیت، بد خلقی اور رسول اکرم ﷺ کی سیرت کی پیروی کو ترک کرنا وغیرہ ہیں۔ ’تنفیر ‘کی چند صورتیں اور شکلیں یہ ہیں: 1- مبلغ کا لوگوں کے ساتھ ایسے اسلوب میں تعامل کرنا جس میں ایک قسم کی شدّت اور درشتی ہو اور شفقت و مہربانی اور نرمی کو ترک کر دیایا گیا ہو۔ 2- لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس کرنا، انھیں توبہ سے ناامید کرنا، گناہ گاروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا، انہیں دھتکارنا اور وعظ و نصیحت کے مقصد سے ان کے ساتھ نہ بیٹھنا۔ 3- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سختی کو اپنانا اور اس میں حکمت سے کام نہ لینا۔ 4- علم کا عمل اور قول کا فعل کے ساتھ موافق نہ ہونا، جیسے کہ کوئی شخص دوسروں کو تو نیکی کا حکم دے اور خود اس کے برخلاف گناہ وغیرہ کرے۔
التَّنْفِيرُ: ’کسی چیز سے ہٹانا‘ اور ’روکنا‘۔ کہا جاتا ہے: ”نَفَّرْتُهُ عن مالِهِ“ میں نے اسے اس کے مال سے متنفر کردیا یعنی اس سے ہٹا دیا اور دور کردیا۔ ’تنفیر‘ کا اصل معنی ہے’ کسی کو نفرت پر آمادہ کرنا‘ یعنی کسی چیز سے دور رہنے اور اجتناب کرنے پر آمادہ کرنا۔ تنفیر قابل بغض بنانے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ اس کی ضد: خوش خبری دینا اور پسندیدہ بنانا ہے۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".