الحليم
كلمةُ (الحليم) في اللغة صفةٌ مشبَّهة على وزن (فعيل) بمعنى (فاعل)؛...
(وہ نقصان) جس میں کسی پر قصاص، دیت اور قیمت کی شکل میں کوئی ضمانت (تاوان) نہ ہو۔
جانور اگر خود کوئی جنایت (نقصان) کریں اور ان کے مالک نے ان کی حفاظت کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے، تو اس میں کوئی ضمانت نہیں ہے۔ یعنی جس شے کو بھی انھوں نے نقصان پہنچایا اور اسے تلف کردیا ہے، یا پھر اسے اپنے ہاتھ یا پاوں وغیرہ سے زخمی کردیا ہے تو اس میں کوئی ضمانت (تاوان) نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ جانوروں پر یا ان کے مالک پر ضمانت کی ذمہ داری ڈالی جائے؛ اس لیے کہ اس کی طرف سے کوئی زیادتی یا کوتاہی سرزد نھیں ہوئی ہے۔ لھٰذا چوپایوں سے سرزد ہونے والی ہر قسم کی جنایت باطل ہوگی، الا یہ کہ ان کے مالک کی طرف سے کوئی زیادتی یا کوتاہی ہوئی ہو۔ اسی طرح وہ نقصان جو کنوئیں میں اترنے یا معدنیات کو نکالنے کے لیے کان میں اترنے پر ہوتا ہے رائیگاں ہے یعنی اس نقصان میں بھی کوئی ضمانت (تاوان) نہیں ہے۔
جُبارُ: کا مطلب ہے رائیگاں اور بے کار۔ کہا جاتا ہے: ”فِعْلُهُ جُبارٌ“ یعنی اس کا کام بے کار ہے۔ اسی طرح ”ذَهَبَ دَمُهُ جُباراً“ یعنی اس کا خون رائیگاں گیا۔