أرْش، زخم، زخم کا تاوان (الأَرْشُ)

أرْش، زخم، زخم کا تاوان (الأَرْشُ)


الفقه أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


وہ رقم جو بےعیب اورعیب دار شے کی قیمت کے فرق سے حاصل ہوتی ہے۔

الشرح المختصر :


ارش: اس نقدی رقم سے عبارت ہے جس کو خریدار شخص بیچنے والے شخص سے واپس لیتا ہے اور یہ رقم کسی عیب زدہ سامان کی قیمت اور بے عیب ہونے کی صورت میں اسی سامان کی بازار کی اصل قیمت میں پائے جانے والے فرق سے حاصل ہوتی ہے۔ اس قیمت کونکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ فروخت شدہ سامان کی اس حالت میں قیمت لگائی جائے کہ وہ عیب سے پاک ہو، پھر عیب کے ساتھ اس کی قیمت لگائی جائے، پھر دونوں قیمتوں میں تفاوت کا تناسب نکالاجائے،چنانچہ خریدار قیمت کے اس حصے کو واپس لینے کے لیے فروخت کنندہ کی طرف حسبِ معاہدہ رجوع کرے گا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کسی شخص نے اپنی کوئی کار فروخت کی جس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپئے تھی، پھر خریدار کو پتہ چلا کہ اس میں کوئی عیب ہے، اس نے ماہرین سے عیب دار شیے کا اسٹیمٹ لگانے اور خرابی بتانے کے لیے رجوع کیا، انھوں نے بتایا کہ عیب زدہ پارٹ کی قیمت اسّی ہزار اور بے عیب پارٹ کی قیمت ایک لاکھ روپئے کے مساوی ہے۔ خرابی کا تناسب پانچ فی صد ہے، فروخت کی قیمت پچاس ہزار اور پچاس ہزار میں پانچ کا تناسب دس ہزار ہے، جو دراصل خرابی کی قیمت ہے۔

التعريف اللغوي المختصر :


’أرش‘ مصدر ہے ’أَرَشَ‘فعل کا۔ اس سے مراد ہے’خراب ہونا۔‘ کہاجاتا ہے ’’أرَّشْتُ بین القومِ تأریشًا، میں نے لوگوں میں فساد برپا کردیا، جب ان کے مابین لڑائی جھگڑا پیدا کردوں، پھر اس کا استعمال اشیاء کو لاحق ہونے والے نقصان کے بارے میں بھی کیا جانے لگا، اس لیے کہ ان کا نقصان ہونے کا مطلب ان میں بگاڑ ہونا ہی ہے۔