فالِ نیک (نیک شگون) (الْفَأْل)

فالِ نیک (نیک شگون) (الْفَأْل)


العقيدة الفقه

المعنى الاصطلاحي :


اچھا گمان کرنا اور اچھی امید رکھنا۔

الشرح المختصر :


فال سے مراد اچھی امید اور اچھا گمان ہے۔ انسان اللہ سے امید لگاتا ہے اور اس سے اچھا گمان رکھتا ہے۔ بندوں کی اپنے رب سے امید رکھنے میں خیر ہے کیوں کہ اللہ سے امید باندھنا عبادت ہے اور اللہ سے اچھا گمان رکھنا بھی عبادت ہے۔ ’فأل‘ کی صورتوں میں سے وہ اچھا کلمہ بھی ہے جسے انسان سنتا ہے، اسی طرح اچھا نام رکھنا بھی فال ہی کی ایک قسم ہے۔ فال گیری میں دل غیر اللہ کے ساتھ متعلق نھیں ہوتا ہے؛ بلکہ اس میں تو نفوس اور ان کے ارادے کے لیے خوشی اور تقویت ہوتی ہے، اور فطرت اور اس کے موزوں ومناسب چیز کی موافقت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی نفوس میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ اچھے نام کو سن کر فرحت و خوشی محسوس کرتے ہیں۔ انسان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں پر امید ہو اور پیش آنے والے امور میں اللہ پر توکل کرنے والا ہو۔ نیک شگون اس چیز میں لیا جاتا ہے جس کا ظاہر اچھا ہو اور جس کے واقع ہونے کی امید ہو۔ مثال کے طور پر انسان سفر کا ارادہ کرے، تو کسی شخص کو یہ کہتے ہوئے سنے: ”اے سھل“ اور یہ سن کر اس کا دل سفر کرنے پر مطمئن ہوجائے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس سنائی دیے جانے والے کلمے نے اسے سفر پر آمادہ کیا ہے؛ بلکہ وہ پہلے ہی ارادہ کر چکا تھا، لیکن جب اس نے یہ کلمہ سنا تو اس کا نیک شگون بڑھ گیا اور اپنے رب کے ساتھ اس کے حسن ظن میں اضافہ ہوگیا۔ نیک شگون کی دو قسمیں ہیں: 1۔ اکتسابی فال: (خود لیا جانے والا شگون) جیسے کوئی انسان مثال کے طور پر شادی یا سفر کا ارادہ کرے اور پھر گھر سے باہر نکل آئے تاکہ اسے کوئی ایسا کلام سننے کو ملے جس سے اسے یہ سمجھ میں آئے کہ اسے یہ کام کرنا چاہیے یا نہیں کرنا چاہیے۔ نیز اس مقصد کے لیے مصحف میں دیکھنا بھی اسی میں شامل ہے۔ یہ پانسے کے تیروں کے ذریعے سے قسمت کا حال معلوم کرنے کی قبیل سے ہے (جوکہ جائز نہیں)۔ 2۔ غیراکتسابی فال (وہ نیک شگون جو خود حاصل کردہ نہ ہو)۔ نیک فال سے یہی مراد ہوتا ہے، بایں طور کہ کوئی مریض کسی کو بغیر کسی ارادے کے یہ کہتے ہوئے سنے کہ ’’اے سالم‘‘؛ تو یہ سن کر وہ شفایابی کی امید اور گمان رکھے۔ یہ اس فالِ نیک کے قبیل سے ہے جسے آپﷺ پسند کیا کرتے تھے۔

التعريف اللغوي المختصر :


الفألُ: یعنی خیر و برکت، کہا جاتا ہے: ”طَلَبَ الفَأْلَ“ یعنی اس نے خیر کو حاصل کرنا چاہا۔ یہ اچھی شے کے معنی میں بھی آتا ہے۔ الفَأْل کی ضد ”الطِّيرَۃُ“ (بدشگونی) آتی ہے، جس سے مراد وہ شے ہے جو ناگوار گزرے اور غمگین کرے۔