المؤمن
كلمة (المؤمن) في اللغة اسم فاعل من الفعل (آمَنَ) الذي بمعنى...
یہ ایک عام نام ہے جو ہر اس شخص کو شامل ہے جو تقدیر کے مسئلہ میں انحراف کا شکار ہے، خواہ وہ انکار کی وجہ سے ہو یا تقدیر کے اثبات میں غلو کی وجہ سے۔
تقدیر پر ایمان لانا ارکانِ ایمان میں سے ایک رکن ہے۔ ’تقدیر‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمام اشیا کا علم ہے، اس علم کا لکھنا، اس کی مشیت کا کارفرما ہونا اور اس کا انھیں پیدا کرنا۔ ہر انسان پر فرض ہے کہ وہ تقدیر پر ایمان لائے چاہے وہ اچھی ہو یا بری، خوشگوار ہو یا ناگوار اور چاہے اس معاملے میں اس کی حکمت اس پر عیاں ہو یا نہ ہو۔ اس بات کی تصدیق کرنا اہلِ سنت کے عقیدے میں شامل ہے کہ اللہ کو اشیاء کے واقع ہونے سے پہلے ان کا علم تھا۔ پھر اس نے انھیں لکھا، پھر ان کا ارادہ کیا، پھر انھیں تخلیق کیا اور وجود بخشا۔ ان اشیاء کا خالق اللہ ہے اور بندہ حقیقی طور پر اپنے افعال کو اپنی قدرت اور اختیار کے ساتھ خود کرتا ہے۔ ’قدریہ فرقہ‘ مسئلہ تقدیر میں بے راہ روی کا شکار ہوا۔ ان کے دو گروہ ہیں: پہلا گروہ: وہ قدریہ جو نفی کرنے والے ہیں: یہ اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ اللہ نے مخلوقات کے افعال کو مقدر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے نہ تو گناہ گاروں کی معصیت کو چاہا اور نہ ہی اسے مقدر کیا۔ ان کے نزدیک بندوں کے افعال کی تخلیق اللہ نے نہیں کی بلکہ بندے اپنے افعال کی ازخود تخلیق کرتے ہیں۔ اس گروہ کی مزید دو اقسام ہیں: 1۔ غالی قدریہ :جو اللہ کے اس قدیم علم کی نفی کرتے ہیں جس کے ساتھ وہ ازل سے متصف ہے اور جس کی بدولت اسے مخلوق جو کچھ عمل کرے گی اور ان کے تمام احوال کا اسے بخوبی علم ہے اور پھر (اس علم کی بنا پر) اس نے لوحِ محفوظ میں مخلوق کی تقدیر لکھی۔ 2۔ عام قدریہ :جو اللہ کی مشیتِ نافذہ اور اس کی قدرت کاملہ کی نفی کرتے ہیں اور اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ جو کچھ اللہ نے چاہا وہی ہوگا اور جو اس نے نہیں چاہا وہ نہیں ہوگا اور یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ تمام موجودات اور معدومات پر قادر ہے۔ دوسرا گروہ: جبری قدریہ؛ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے تقدیر کے اثبات میں غلو سے کام لیا۔ ان کے بقول انسان کا نہ تو کوئی اپنا اختیار ہے اور نہ ہی کوئی فعل اور قدرت۔ وہ تو محض ہوا میں اڑتے ہوئے پر کی مانند ہے۔ چنانچہ مخلوق کے تمام افعال چاہے وہ نیکیاں ہوں یا گناہ وہ درحقیقت اللہ کے افعال ہیں اور مخلوق کے پاس کسی قسم کا ارادہ اور اختیار نہیں ہے۔ چنانچہ وہ تقدیر کو اپنے گناہوں پر دلیل وحجت بناتے ہوئے کہتے ہیں: یہ تو اللہ نے ہمارے بارے میں مقدر کیا تھا تو وہ ہمیں کیسے سزا دے سکتا ہے۔
القدریہ: یہ ’قدر‘ کی طرف نسبت ہے۔ اس سے مراد قضا اور فیصلہ ہے، کہا جاتا ہے: ”قَدَرَ اللهُ الأَمْرَ، يَقْدُرُهُ قدراً“ یعنی اللہ تعالی نے اس امر کا فیصلہ فرمایا ہے۔ اصل میں یہ القدر سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے کسی بھی شے کی انتہا، یہ اندازہ لگانے اور تدبیر کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔