القوي
كلمة (قوي) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل) من القرب، وهو خلاف...
جو چیز بھی انسان اپنی مرضی سے نفع کے حصول یا نقصان کو دور کرنے کے لیے کرتا ہے، اسے کسْب کہا جاتا ہے۔
ہر وہ اچھی یا بُری چیز جو بندے کے دل یا زبان یا اعضا سے انجام پاتی ہے وہ اس کے اختیار اور ارادے سے ہوتی ہے، وہ کسی شے پر مجبور نہیں ہے، نہ ہی وہ اپنے افعال کا خالق ہے، اس لیے کہ بندہ اپنے جسم، صفات اور افعال کے ساتھ اللہ کی ایک مخلوق ہے، اور اللہ تعالی نے اس کو مشیت اور قدرت سے نوازا ہے، اگر وہ ان دونوں کو خیر کے حصول اور شر کے ترک میں بروئے کار لاتا ہے تو یہ قابلِ تعریف عمل ہوگا اور اگر انہیں اس کے برخلاف استعمال کرتا ہے تو یہ قابلِ مذمت ہوگا۔ مثال کے طور پر جب بندہ نماز پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے تو وہ حقیقی معنوں میں نماز پڑھنے والا اور روزہ رکھنے والا ہوتا ہے، اور جب وہ نافرمانی کرتا ہے تو حقیقی معنوں میں وہ نافرمانی کرنے والا ہوتا ہے، اس لیے کہ اسے ارادہ اور قدرت حاصل ہے۔ بندوں کے افعال کو دو زاویوں سے دیکھا جاتا ہے: 1-جن افعال کا تعلق اللہ سے ہے ،اور وہ یہ ہے کہ اللہ بندوں کے افعال کا خالق ہے۔ اس کے بارے میں اہلِ سنت اور اشاعرہ کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے۔ 2- جن افعال کا تعلق بندوں سے ہے، اس میں اشاعرہ اہلِ سنت کے خلاف ہیں۔ اہلِ سنت کا کہنا ہے کہ بندہ حقیقی معنی میں (کام کا) فاعل ہے اور اُسے حقیقی طور پر قدرت اور مشیت حاصل ہے۔ جہاں تک اشاعرہ کی بات ہے تو وہ کسب کی مبنی بر بدعت تفسیر کرتے ہیں، جس کا ماحصل بندے کی قدرت کی تاثیر کی نفی کرنا ہے، اور یہ کہ بندہ حقیقی فاعل نہیں ہے، بلکہ حقیقی فاعل اللہ ہے۔ اس طرح کسب کا معنی ان کے ہاں جبر کے معنی پر منتج ہوتا ہے۔
کسب: اکٹھا کرنا، حاصل کرنا۔ آپ کہتے ہیں: ’’ كَسَبْتُ مالاً، واكْتَسَبْتُهُ كَسْباً واكْتِساباً‘‘ کہ میں نے دولت کمایا اور اسے حاصل کیا۔ اس کا اصل معنی ہوتا ہے: طلب کرنا اور کوشش کرنا۔ یہ کمائی ہوئی چیز اور کسی چیز کو اپنے اعضاء وجوارح سے کرنے کے معنی میں بھی آتا ہے۔