مجاز (الْمَجَازُ)

مجاز (الْمَجَازُ)


علوم القرآن العقيدة أصول الفقه الفقه

المعنى الاصطلاحي :


لفظ کو کسی تعلق کی بنا پر اس کے معنی موضوع لہ کے علاوہ کسی اور معنی میں استعمال کرنا بشرطیکہ اس کے ساتھ قرینہ بھی ہو۔

الشرح المختصر :


کلام کی دو قسمیں ہیں: ایک’حقیقت‘ جو کہ اصل ہے اور دوسری ’مجاز‘۔ ’مجاز‘ کا معنی ہے: لفظ کو حقیقی اور مجازی معنی کے مابین کسی تعلق کی بنا پر اس کے اصلی حقیقی معنی کی بجائے کسی اور معنی میں استعمال کرنا۔ ’تعلق‘ سے مراد وہ شے ہے جو دونوں معنوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرتی ہے اور ’قرینہ‘ سے مراد وہ سبب ہے جو ذہن کو حقیقی معنی مراد لینے سے روکتا ہے۔ مثلاً آپ کا یہ کہنا کہ ’’رَأَيْتُ أَسَداً يَحْمِلُ سَيْفًا‘‘۔ اس مثال میں ’اسد‘ (شىر) کو اس کے حقیقی معنی میں جو کہ ایک معروف حیوان ہے، نہیں استعمال کیا گیا ہے؛ بلکہ اسے ایک دوسرے معنی میں استعمال کیا گیا ہے یعنی ’بہادر آدمی‘۔ یہ اس کا مجازی معنی ہے۔ ان دونوں معانی کے مابین بہادری کا تعلق ہے۔ اور جانور کے تلوار اٹھانے کا محال ہونا قرینہ ہے۔ ’مجاز‘ کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم: مجاز لغوی: جس میں لغت کی الفاظ میں تصرف ہوتا ہے چاہے وہ مفردات میں ہو یا مرکبات میں۔ اس کی دو قسمیں ہیں: 1۔ مجاز مرسل: جب دونوں معانی یعنی حقیقی اور مجازی معنوں کے مابین مشابہت کے علاوہ کوئی اور علاقہ ہو تو اسے ’مجاز مرسل‘ کہا جاتا ہے۔ 2۔ مجاز استعاری: جب دونوں کے مابین مشابہت کا علاقہ ہو یعنی حقیقی معنی مجازی معنی سے مشابہہ ہو تو اسے ’مجاز استعاری‘ کہا جاتا ہے۔ دوسری قسم: مجازِ عقلی: فعل یا اس طرح کی کسی اور شے کو اس کے حقیقی فاعل کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب کرنا ان دونوں کے مابین کسی علاقہ یا قرینے کے موجود ہونے کی وجہ سے۔ جیسے فعل کی نسبت وقت یا جگہ وغیرہ کی طرف کرنا۔ مثلاً یہ کہنا کہ ’ازْدَحَمَتْ الطُّرُقُ‘ (سرکیں مزدہم یعنی تنگ ہو گئیں) ’مجاز مرسل‘ ہے کیونکہ سرکیں خود تنگ نہیں ہوتی ہیں بلکہ لوگوں کے سبب یہ تنگ ہو جاتی ہیں۔

التعريف اللغوي المختصر :


مجاز کا لغوی معنی ہے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔ یہ دراصل ’تجاوز‘ سے نکلا ہے جس کا معنی ہے:پار کر جانا اور پھاند جانا۔ ’مجاز‘ کا معنی کلام میں توسع اور کشادگی سے کام لینا بھی آتا ہے۔