فرقۂ معتزلہ (الْمُعْتَزَلَة)

فرقۂ معتزلہ (الْمُعْتَزَلَة)


العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


اہلِ بدعت کا ایک فرقہ جو عمرو بن عبید اور واصل بن عطاء کے پیروکار ہیں۔ یہ پانچ اصولوں کے قائل ہیں جو یہ ہیں: توحید، عدل، وعدہ و وعید، منزلۃ بین منزلتین (یعنی ایمان اور کفر کے مابین کا مرتبہ) اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر۔

الشرح المختصر :


’مُعتَزِلَہ‘: یہ ایک اسلامی فرقہ ہے جو دوسری صدی ہجری کے اوائل، اموی دور کے اواخر میں ظہور پذیر ہوا اور عباسی دور میں پروان چڑھا۔ اس فرقے نے بیرونی درآمدشدہ فلسفوں سے متاثر ہو کر اسلامی عقیدے کو سمجھنے میں محض عقل پر اعتماد کیا جس کی وجہ سے یہ اہلِ سنت و جماعت کے عقیدے سے منحرف ہوگئے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو 'أصحابُ العَدْلِ والتَّوحِيدِ' کا نام دیتے ہیں۔ معتزلہ کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں راجح قول یہ ہے کہ انہیں یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ ان کا سربراہ واصل بن عطاء‘ حسن بصری رحمہ اللہ کے حلقے سے اس وقت الگ ہو گیا تھا جب اس نے یہ کہا تھا کہ: ”کبیرہ گناہ کا مرتکب دنیا میں دو منزلتوں کے درمیان کی منزلت پر ہے“۔ (یعنی نہ وہ مومن ہے اور نہ کافر)۔ اور یہ کہ اگر اس (گناہ گار) نے مرنے سے پہلے توبہ نہ کی تو وہ مخلد فی النار ہوگا۔ معتزلہ کے ناموں میں سے ایک نام 'قَدَرِیہ' بھی ہے۔ انہیں یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ یہ تقدیر کا انکار کرنے اور بندوں کے افعال کو ان کی قدرت کی طرف منسوب کرنے میں قدریہ گروہ کی موافقت کرتے ہیں۔ انہیں 'ثنویہ' اور 'مجوسيہ' بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ خیر اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور شر بندے کی طرف سے۔ یہ عقیدۂ ثنویت اور مجوسیت کے مشابہہ ہے جو دو معبودوں کے وجود کے قائل ہیں: جن میں سے ایک خیر کا معبود ہے اوردوسرا شر کا۔ انہیں 'الوعيدية' کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس اسم کی وجہ تسمیہ ان کا اس بات کو ماننا ہے کہ وعدہ اور وعید ضرور بالضرور پورے ہوں گے اور یہ کہ اللہ تعالی اپنے وعدے اور وعید کی مخالفت نہیں کرتا۔چنانچہ گناہ گار کو عذاب ضرور ملے گا ماسوا اس کے کہ وہ مرنے سے پہلے توبہ کرلے۔ ان کا ایک نام 'معطلہ' بھی ہے ۔ فرقہ جہمیہ کو بھی یہ نام دیا جاتا ہے، پھر اس کا اطلاق معتزلہ پر بھی ہونے لگا کیونکہ صفات کی نفی اور ان کی تعطیل میں اور کتاب و سنت کے جو نصوص ان کے مذہب سے مطابقت نہیں رکھتے ان کی تاویل کرنے میں یہ جہمیہ سے اتفاق رکھتے ہیں۔ان کے پانچ اصول ہیں: پہلا اصول: پہلا اصول توحید ہے۔ توحید سے وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار مراد لیتے ہیں اس حجت کے ساتھ کہ اللہ کی صٖفات کا اثبات تعددِ قدیم کو مستلزم ہیں اور یہ ان کے خیال میں شرک ہے۔ کیونکہ صفات کو ثابت کرنے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہر صفت کو الگ سے ایک خدا بنایا جارہا ہے اور اس سے بچنے کا طریقہ صرف یہ ہے کہ صفات کی نفی کی جائے اور انہیں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف لوٹایا جائے بایں طور کہ یوں کہا جائے: وہ عالم بذاتہ ہے، قادر بذاتہ ہے ۔ ۔ ۔الخ۔ اور اس طرح سے ان کے خیال میں توحید کا اثبات ہوجائے گا۔ دوسرا اصول: دوسرا اصول عدل ہے ۔ اس سے معتزلہ ہر وہ شے مراد لیتے ہیں جو اللہ کے افعال سے متعلق ہوتی ہے جنھیں یہ حُسن کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ان سے قباحت کی نفی کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کی بھی نفی کرتے ہیں کہ قضاء و خلق کے اعتبار سے بندوں کے قبیح اعمال اللہ کی طرف سے ہوتے ہیں کیونکہ یہ قبیح فعل کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کرنے کا موجب ہے، جب کہ وہ اس سے پاک ہے۔ تیسرا اصول: وعدہ اور وعید ہے۔ وعدے کا ان کے نزدیک مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے لیے واجب ہے کہ وعدہ پورا کرے اور بندے کو اس نے جن نیک کاموں کا ذمہ دار بنایا ہے ان پر اسے اجر دیے کیون کہ بندہ جب اللہ تعالی کی اختیار کردہ ان تمام ذمہ داریوں کو پورا کرتا ہے جو اس نے اپنے بندوں پر ڈالی ہوتی ہیں تو اللہ کے اس سے کئے گئے وعدے کی رو سے اس کا یہ اللہ پر حق بنتا ہے(کہ وہ اسے اس کا اجر دے)۔ ان کے ہاں وعید کا مفہوم یہ ہے کہ نافرمان مومنوں کے بغیر توبہ مرنے پر اللہ نے ان کے لئے جو وعید سنائی ہے اسے وہ ضرور پورا کرے گا اور یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ (اپنی بات کی) خلاف ورزی کرے اور جھوٹ بولے۔ چوتھا اصول: منزلۃ بین منزلتین: اس سے مراد ان کی یہ ہے کہ گناہ گار مومن نہ تو مومن ہے اور نہ ہی کافر، بلکہ اس کا ایک الگ سے تیسرا حکم ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں اسے 'فاسق' کہا جائے گا اور آخرت میں وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ چوں کہ دنیا میں اس کے اسم اور حکم کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے اس لیے وہ اس بات کا مستحق ہے کہ وہ (کفر اور ایمان کے) دو منزلتوں کے درمیان ایک (تیسرے) درجے میں ہو۔ پانچواں اصول: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر: معتزلہ کے ہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر فرضِ کفایہ ہیں بایں طور کہ اگر اتنے لوگ اس فریضے کو ادا کردیں جو کہ کافی ہوں تو باقی لوگوں سے یہ ساقط ہوجاتا ہے، تاہم اہلِ سنت اور معتزلہ کے مابین درج ذیل باتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے: 1۔ برائی کو بدلنے کا طریقہ۔ 2۔ ان کے نزدیک ظالم بادشاہ کے خلاف خروج واجب ہے۔ 3۔ مخالفین کے خلاف اسلحہ اٹھانا، چاہے وہ کافر ہوں یا اہلِ قبلہ میں سے گناہ گار لوگ ہوں۔

التعريف اللغوي المختصر :


’مُعْتَزِلَہ‘: يہ 'اعتزال' کی طرف نسبت ہے جس کا معنی ہے: ’دور ہونا اور ایک گوشے میں ہوجانا‘۔ کہا جاتا ہے: ”عَزَلَ الشَّيءَ“ جب کوئی کسی شے کو ایک جانب میں کردے۔