الزهد والورع
عطیہ بن عروہ سعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "بندہ اس وقت تک پرہیزگاروں کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ایسی چیزوں کو بھی نہ چھوڑ دے جن میں کوئی حرج نہ ہو تاکہ وہ ان چیزوں سے بچ جائے جن میں حرج ہے۔"  
عن عطية بن عروة السعدي -رضي الله عنه- قالَ: قال رسولُ اللهِ -صلى الله عليه وسلم-: "لا يَبْلُغُ العبدُ أنْ يكونَ من المتقينَ حتى يَدَعَ ما لا بَأسَ بِهِ، حَذَرًا مِمَّا به بَأسٌ".

شرح الحديث :


بندہ اس وقت تک متقین کے درجے کو نہیں پاسکتا جب تک کہ وہ اس حلال کو ترک نہ کردے جس میں کوئی فائدہ نہ ہو اس خدشے کے پیش نظر کہ کہیں وہ حرام میں مبتلا نہ ہوجائے۔ اسی طرح اگر کوئی مباح کسی حرام کے ساتھ مشتبہ ہو جائے اور ان دونوں میں فرق کرنا دشوار ہو تو اس صورت میں کمال تقوی کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ حرام میں پڑنے کے خوف سے حلال کو بھی چھوڑ دے۔ اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن اس کا معنیٰ صحیح ہے کیونکہ ایک متفق علیہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ''یقینا حلال واضح ہے اورحرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے، چنانچہ جو شخص شبہہ کی چیزوں سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور آبرو کو محفوظ کرلیا، اور جو شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ جائےگا۔ اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو کسی محفوظ چراہ گاہ کے اردگرد اپنے جانور چراتا ہے، تو قریب ہے کہ جانور اس چراگاہ میں سے بھی چر لیں۔ سنو! ہر بادشاہ کی ایک محفوظ چراہ گاہ ہوتی ہے (جس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی) آگاہ رہو! اللہ کی چراگاہ اس کى حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنو! جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہے تو سارا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، جان لو! وہ دل ہے۔“  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية