قيام الليل
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وتر حق ہے؛ جو چاہے سات پڑھ لے، جو چاہے پانچ پڑھ لے، جو چاہے تین پڑھ لے اور جو چاہے ایک پڑھ لے۔"  
عن أبي أيوب الأنصاري -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «الوِتر حَق، فمن شاء أوْتَر بِسبْعٍ، ومن شاء أوْتَر بخمس، ومن شاء أوْتَر بثلاث، ومن شاء أوْتَر بواحدة».

شرح الحديث :


حدیث کا مفہوم: "الوِتر حَقٌّ"۔ الحَقُّ: ثبوت کے معنی میں آتا ہے۔ یعنی سنت سے ثابت ہے۔ اس میں یک گونہ تاکید ہے۔ یہ وجوب کے معنی میں بھی آتا ہے۔ لیکن یہاں مراد پہلا معنی ہے۔ یعنی یہ سنت مؤکدہ ہے۔ کیوں کہ بہت سارے واضح دلائل اس کے عدم وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک روایت طلحہ بن عبیداللہ کی ہے، جسے شیخین نے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ایک شخص اہل نجد میں سے رسول اللہ ﷺکے پاس آیاـ ـ ـ ـ ـ اس حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: (خمس صلوات في اليوم والليلة) کہ دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ اس نے پوچھا کہ کیا ان کے علاوہ بھی مجھ پر کوئی نماز فرض ہے؟ تو آپ نے فرمایا: "نہیں! الا یہ کہ تو نفل پڑھے۔" چنانچہ اگر یہ واجب ہوتا، تو اسے پانچ نمازوں کے ساتھ بیان کیا جاتا۔ نیز آپﷺ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو شخص اس حالت میں آئے گا کہ اس نے ان کے حق کو ہلکا سمجھ کرضائع نہیں کیا ہو گا، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے لیے عہد ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔" اس کے عدم وجوب کے دلائل میں سے بخاری و مسلم میں موجود عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی وہ روایت بھی ہے، جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا، اس میں ہے: "ان کو یہ بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے دن اور رات میں ان پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔" یہ سب سے بہتر دلائل میں سے ہے؛ کیوں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بھیجنے کا عمل آپ کی وفات سے کچھ ہی دنوں پہلے کا تھا۔ اس کی ایک دلیل علی رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت بھی ہے: (الوِتر ليس بِحتم) کہ وتر لازمی نہیں ہے۔ اس طرح یہاں ’حق‘ سے مراد وتر کی تاکید اور فضیلت کو دو چند کرنا اور یہ بتانا ہے کہ یہ سنت مؤکدہ ہے۔ یہی بات درست ہے۔ "فمن شاء أوْتَر بِسبْعٍ ومن شاء أوْتَر بخمس"۔ جو چاہے سات وتر پڑھے اور جو چاہے پانچ۔ یعنی دو دو رکعتیں پڑھے اور پھر ایک رکعت پڑھ کر انھیں طاق بنالے۔ یہی اصل ہے۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: (صلاة الليل مثْنَى مثْنَى) کہ رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔ متفق علیہ۔ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ وہ ساری رکعتیں مسلسل پڑھتا جائے اور صرف آخری رکعت ہی میں بیٹھے۔ یہ بھی جائز ہے۔ یہ آپ کے فعل سے بھی ثابت ہے۔ جیسا کہ مسند احمد میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایہ ہے۔ وہ فرماتی ہیں: "آپ سات وتر بھی پڑھتے تھے اور پانچ بھی، لیکن ان کے درمیان سلام یا کلام کے ذریعے فاصلہ نہیں کرتے تھے۔" اور ابو داؤد میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: " آپ پانچ وتر پڑھتے تھے اور درمیان میں نہیں بیٹھتے، بلکہ آخر میں بیٹھتے تھے۔ "ومن شاء أوْتَر بثلاث"۔ یعنی دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اور پھر ایک رکعت پڑھ لے؛ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: (صلاة الليل مثْنَى مثْنَى) متفق عليه۔ یعنی رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد لگاتار پڑھنا ہے۔ یعنی لگاتار تین رکعتیں پڑھے اور صرف آخری رکعت میں بیٹھے۔ یہ بھی رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے۔ جیسا کہ ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ وتر کی پہلی رکعت میں سورۂ اعلیٰ پڑھتے، دوسری رکعت میں سورۂ کافرون اور تیسری رکعت میں سورۂ اخلاص پڑھتے اور آخر میں سلام پھیرتے۔ سنن نسائي۔ جب کہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ وتر کی دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے۔ سنن نسائی۔ شیخ ابن عثیمین فرماتے ہیں کہ وتر تین ،پانچ، سات اور نو جائز ہیں۔ اگر کسی کو تین پڑھنے ہیں، تو اس کی دو صورتیں ہیں اور دونوں ہی مشروع ہیں؛ پہلی صفت یہ ہے کہ تینوں رکعتیں مسلسل ایک ہی تشہد کے ساتھ پڑھی جائیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دیا جائے اور ایک رکعت الگ سے پڑھ لی جائے۔ افضل یہ ہے کہ دو رکعتوں کے بعد سلام پھیر دے، پھر ایک رکعت پڑھے؛ تاکہ اس کی ساری نماز طاق ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ کا اکثر عمل اسی کے مطابق تھا۔ اگر کوئی صرف ایک وتر پڑھنا چاہے، تو بھی جائز ہے۔ یعنی صرف ایک رکعت پڑھ لے۔ اس کے ساتھ جفت رکعتیں نہ ملائے۔ شرح المشكاة للطيبي (4/1224) نيل الأوطار(3/39) مرعاة المفاتيح(4/274) سبل السلام (2/342) توضيح الأحكام (2/398) تسهيل الإلمام(2/370) الشرح الممتع (4/14)-  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية