الدعاوى والبيِّنات
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے حجرے کے دروازے پر جھگڑے کا شور سنا، تو آپﷺ ان جھگڑا کرنے والوں کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: "میں ایک انسان ہی ہوں۔ میرے پاس کوئی فیصلے کے لیے جھگڑا لےکر آتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دوسرے کی بہ نسبت زیادہ عمدگی سے بات کرے، جس کی بنا پر میں سمجھ لوں کہ وہ سچا ہے اور اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ تو جس شخص کو میں کسی مسلمان کا حق دلا دوں، اسے جان لینا چاہیے کہ یہ دوزخ کا ایک ٹکڑا ہے، چاہے تو وہ اسے لے لے اور چاہے تو چھوڑ دے"۔  
عن أُمُّ سَلَمَة -رضي الله عنها- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سَمِعَ جَلَبَةَ خَصْمٍ بِبَابِ حُجْرَتِهِ، فَخَرَجَ إلَيْهِمْ، فقال: «ألا إنما أنا بشر، وإنما يأتيني الخصم، فلعل بعضكم أن يكون أبلغ من بعض؛ فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ؛ فَأَقْضِي لَهُ، فمن قضيت له بحق مسلم فإنما هي قطعة من نار، فَلْيَحْمِلْهَا أَوْ يَذَرْهَا».

شرح الحديث :


نبی ﷺ نے کچھ جھگڑنے والوں کی ملی جلی آوازیں سنیں، جو آپ ﷺ کے دروازے کے پاس جھگڑا اور بحث کر رہے تھے۔ آپ ﷺ ان کے مابین فیصلہ کرنے کے لیے باہر تشریف لے گئے،اور فرمایا:"میں تمھاری ہی طرح ایک انسان ہوں، میں غیب نہیں جانتا اور نہ مجھے مخفی امور کے بارے میں بتایا جاتا ہے، جن کی بنا پر مجھے معلوم ہو جائے کہ تم میں سے کون سچا اور کون جھوٹا ہے؟ جن لوگوں کے مابین جھگڑا ہوتا ہے، وہ میرے پاس فیصلہ کرانے آتے رہتے ہیں اور میرا فیصلہ فریقین کے پیش کردہ دلائل اور قسموں پر مبنی ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی زیادہ فصیح و بلیغ اور قادر الکلام ہو اور میں اسے سچا سمجھتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ کردوں حالاںکہ اندرونی حقائق کی رو سے اس کا مد مقابل حق پر ہو۔ تو جان لو کہ میرا فیصلہ ظاہری امورپر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ باطنی امور پر۔ چنانچہ میرے فیصلے کی وجہ سے کوئی حرام شے حلال نہیں ہوجاتی۔ اس لیے اگر میں کسی کو کسی دوسرے کا حق دے دوں، حالاںکہ وہ جانتا ہو کہ وہ باطل پر ہے۔ تو میں اسے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دیتا ہوں، چاہے تو وہ اسے لے لے اور چاہے تو چھوڑ دے۔ اس کا عقاب اسی کو ہو گا اور اللہ تعالی ظالم لوگوں کی گھات میں رہتا ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية