العتق
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک انصاری شخص نے اپنے ایک غلام کو مدَبَّرْ قرار دے دیا۔ ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ: نبی ﷺ کو اطلاع ملی کہ آپ ﷺ کے صحابہ میں سے ایک شخص نے بطور مدبر اپنے ایک غلام کو آزاد کر دیا ہے۔ اس شخص کے پاس اس غلام کے علاوہ کوئی اور مال نہیں تھا۔ آپ ﷺ نے اس غلام کو آٹھ سو درہم کے عوض بیچ دیا اور ا س کی قیمت اس (انصاری) کی طرف بھجوا دی۔  
عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- قال: دَبَّرَ رَجُلٌ مِنْ الأَنْصَارِ غُلاماً لَهُ-، وَفِي لَفْظٍ: بَلَغَ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم-: أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَصْحَابِهِ أَعْتَقَ غُلاماً لَهُ عنْ دُبُرٍ- لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُ فَبَاعَهُ رَسُولُ الله بِثَمَانِمِائَةِ دِرْهَمٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ ثَمَنَهُ إلَيْهِ.

شرح الحديث :


ایک انصاری آدمی نے اپنے غلام کی آزادی کو اپنی موت کے ساتھ معلق کر دیا(اسی کو غلاموں کی تدبیر کہتے ہیں)۔ اس غلام کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا مال نہیں تھا۔ جب نبی ﷺ تک یہ بات پہنچی تو آپ ﷺ نے اس آزادی کو تفریط گردانتے ہوئے اس کے اس فعل کی تایید نہیں فرمائی بلکہ آپ ﷺ نےاسے مسترد کرتے ہوئے اس غلام کو آٹھ سو درہم کے عوض بیچ دیا اور یہ دراہم اس کی طرف بھیج دیئے۔ اس شخص کا اپنی اور اپنے اہل خانہ کی کفالت کرنا آزاد کرنے سے بہتر اور افضل تھا تاکہ وہ لوگوں کا دست نگر نہ ہو جائے۔ اس طرح کی احادیث میں ایسے احکام ہوتے ہیں جن سے انسان کو واقف ہو نا چاہیے، اگرچہ وہ ان پر عمل نہ ہی کرے۔ یہ مناسب نہیں کہ اس حجت کی بنا پر وہ انھیں سیکھنا اور سمجھنا ہی چھوڑ دے کہ آج کل غلام پائے ہی نہیں جاتے۔ غلامی افریقہ کے بعض علاقوں میں ابھی بھی موجود ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ پھر سے رائج ہو جائے جب کہ یہ آدم علیہ السلام سے لے کر اسلام کی آمد اور اس کے بعد تک موجود رہی ہے۔ تاہم غلامی کی صورت میں اسلام حریت اور آزادی کی طرف میلان رکھتا ہے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية