آداب السلام والاستئذان
ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سوار پیدل چلنے والے کو، پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کريں۔‘‘  
عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: « يُسَلِّمُ الراكِبُ على الماشي، والماشي على القاعد، والقليلُ على الكثير».

شرح الحديث :


اس حدیث میں اس بات كا بيان ہے کہ سلام کرنے میں پہل کس کو کرنا چاہیے۔ پہلا: سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے، اس لیے کہ سوار اوپر اور بلند ہوتا ہے۔ لہٰذا بلندى كى حالت میں اس کی طرف سے سلام کرنے ميں پہل کرنا اپنے مسلمان بھائی کے لیے تواضع و خاکساری اختیار کرنے کی دلیل ہے۔ اور یہ دوسروں کے دلوں میں اس کی مودت ومحبت پیدا كرنے کا زیادہ باعث ہے۔ دوسرا: پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے، اس لیے کہ وہ گھر کے اندر موجود لوگوں کے پاس آنے والے شخص کی طرح ہے۔ اس ميں دوسری حکمت یہ ہے کہ بیٹھے ہوئے شخص کے لیے راہ گیروں کی رعایت کرنا ان کی کثرت کی وجہ سے دشوار ہو سکتا ہے۔ لہذا اس دشواری کو ختم کرنے کے لیے اس کی جانب سے سلام کرنے کی شروعات کو ساقط کرديا گیا۔ تیسرا: کم تعداد والے زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں۔ یہ اس جماعت (کثیر تعداد) کے لیے احترام اور اکرام کے اظہار کے طور پر ہے۔ چوتھا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ کیوں کہ بڑے کا چھوٹے پر حق ہوتا ہے۔ لیکن اگر بالفرض کم تعداد والے غفلت ميں ہوں اورسلام نہ کريں تو زیادہ تعداد والوں کو سلام کرنا چاہیے، اسی طرح اگر بالفرض چھوٹا غافل ہو تو بڑے کو سلام کرنا چاہیے، سنت کو ترک نہیں کيا جانا چاہیے۔ نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم نے اس حديث میں جو ذکر کیا ہے اس کا مطلب يہ نہیں ہے کہ: اگر بڑے نے چھوٹے کو سلام کرلیا تو یہ حرام ہو گیا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ: بہتریہ ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کرے، اور اگر چھوٹا سلام نہیں کرتا ہے تو بڑے کو چاہیے کہ وہ سلام کرلے، کيونکہ اگر وہ سلام میں پہل کرے گا تو ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ: ’’سلام میں پہل کرنے والے لوگ اللہ سے سب سے زيادہ قريب ہوتے ہیں۔‘‘ کی وجہ سے فضیلت کا مستحق ہوگا۔ اسی طرح اگر ملاقات ہو جائے تو اللہ کے نزديک بہترین شخص وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ: ’’ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔‘‘  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية