الأذكار للأمور العارضة
ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ جب اپنا دستر خوان اٹھاتے تو فرماتے: ’’الحَمْدُ للهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، غَيْرَ مَكْفِيٍّ، وَلَا مُوَدَّعٍ، وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا‘‘۔ ترجمہ:سب تعریف اللہ کے لیے ہے، ایسی تعریف جو بہت زیادہ، پاکیزہ اور با برکت ہے اس حال میں کہ اس کی ذات کسی کی محتاج نہیں اور نہ ہی اس کو چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ اس سے بے نیازی برتی جاسکتی ہے، اے ہمارے رب!  
عن أبي أمامة -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كَانَ إذا رَفَعَ مَائِدَتَهُ، قال: «الحَمْدُ للهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، غَيْرَ مَكْفِيٍّ، وَلَا مُوَدَّعٍ، وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا».

شرح الحديث :


حدیث کا مفہوم: نبی ﷺ اپنے صحابہ کو اقوال و افعال کے ذریعے سنت کی تعلیم دیتے۔ آپ ﷺ سے جو اذکار مذکور ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب آپ ﷺ اپنے سامنے موجود کھانے کے برتن اٹھاتے تو فرماتے: ''الحمد لله " اس کا معنی یہ ہے کہ ہر قسم کی تعریف اور شکر در حقیقت صرف اور صرف اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور اس کا سزاوار نہیں۔ "حمداً كثيراً "۔ یعنی بکثرت تعریف جو اس کی عظمت اور جمال و کمال کے شایان شان ہے اور ایسا شکر جو اس کی ان گنت نعمتوں اور ناقابلِ احاطہ احسان کے مقابل ہے۔ (وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا) ترجمہ: اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہ کر سکو گے۔ ''طیبا'' یعنی جو ریا اور جذبۂ ناموری سے پاک ہو۔ " مباركاً " یعنی جس میں قبولیت ہو جسے رد نہ کیا جائے۔ کیونکہ برکت کا معنی ہے خیر۔ اور جو عمل مقبول نہیں ہوتا اس میں کچھ خیر نہیں ہوتی۔ " غير مَكْفِي " یعنی ہم اللہ عزّ وجلّ کی تعریف کرتے ہیں اس حال میں کہ وہی اپنے بندوں کی کفایت کرنے والا ہے، اس کی مخلوق میں سے کوئی اس کی کفایت کرنے والا نہیں کیونکہ اسے کسی کی ضرورت نہیں۔ " ولا مودع " یعنی ہم اللہ سبحانہ و تعالی کی حمد بیان کرتے ہیں اس حال میں کہ اسے چھوڑا نہیں جا سکتا اور نہ ہی ہم میں سے کوئی اسے چھوڑتا ہے کیونکہ ہم سب اس کے محتاج ہیں۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية