الخبير
كلمةُ (الخبير) في اللغةِ صفة مشبَّهة، مشتقة من الفعل (خبَرَ)،...
ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ پیشانی پر اور اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیوں پر اور یہ کہ ہم اپنے کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں‘‘۔
حدیث کا مطلب: "أمِرْت أن أسْجُد" ایک روایت میں ہے "أُمرنا" اور ایک روایت میں ہے "أَمَر النبي ﷺ"۔ تینوں روایتیں بخاری کی ہیں۔ شرعی قاعدہ یہ ہے کہ جس چیز کا حکم آپ ﷺ کو دیا جائے وہ حکم آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے لیے عام ہوتا ہے۔ "على سَبْعَة أعَظُم" یعنی مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ الأعَظُم سے مراد سجدے کے اعضاء ہیں جیسا کہ دوسری روایت میں اس کی تفسیر بیان کی گئی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اس کی تفسیر فرمائی: "على الجَبْهَة" یعنی مجھے پیشانی پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، پیشانی کے ساتھ ناک بھی شامل ہے جیسا کہ "وأشار بِيَده على أنْفِه" یعنی آپ ﷺ نے ناک کی طرف اشارہ فرمایا تاکہ وضاحت کریں کہ پیشانی اور ناک دونوں ایک ہی عضو ہیں۔ "واليَدَين" یعنی دونوں ہاتھوں کے باطن پر۔ یدین مطلق بولے جانے کے وقت یہی مُراد ہوتا ہے۔ "والرُّكبَتَين وأطْرَاف القَدَمين" یعنی مجھے دونوں گھٹنوں اور پاؤں کے پنجوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ باب صفة الصلاة میں ابو حُمید ساعدی کی حدیث ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے (واسْتَقبل بأصابع رِجْلَيه القِبْلَة) یعنی حالتِ سجدہ میں آپ ﷺ کے پاؤں کی انگلیاں قبلہ رُخ تھی۔"ولا نَكْفِتَ الثِّياب والشَّعر"۔ الكَفْت: کا معنی ہے ضم کرنا اور سمیٹنا، مطلب یہ ہے کہ رکوع اور سجدے کے وقت کپڑے اور بال بکھرنے کی صورت میں ہم انہیں نہیں سمیٹتے تھے، بلکہ ہم انہیں اپنی حال پر چھوڑ دیتے تھے اور زمین پر دونوں گر پڑتے، تاکہ تمام اعضاء کپڑوں اور بالوں کے ساتھ سجدہ کریں۔