الوهاب
كلمة (الوهاب) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعّال) مشتق من الفعل...
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی ڈالے اورپھراسے جھاڑے اورجو شخص پتھروں سے استنجا کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد سے استنجا کرے اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے تو برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھو لے، کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری‘‘۔ ایک اور روایت میں ہے کہ: ’’وہ اپنے نتھنوں سے پانی چڑھائے‘‘۔ اور دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ ’’جو وضو کرے وہ (ناک میں) پانی چڑھائے‘‘۔
اس حدیث میں تین جملے ہیں جن میں سے ہر ایک کا خاص حکم ہے: 1۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی وضو شروع کرے تو اپنے ناک میں پانی ڈالے اور پھر اسے اس سے باہر نکالے۔ یہی وہ اسنتشاق اور استنثار ہے جو حدیث میں مذکور ہے۔ کیونکہ ناک چہرے کا حصہ جس کے بارے میں وضو کرنے والے کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسے دھوئے۔ بہت سی ایسی صحیح احادیث موجود ہیں جو اس کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں۔ کیونکہ یہ ایسی صفائی ہے جو شرعا مطلوب ہے۔ 2۔ پھرآپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے سے نکلنے والی گندگی کو پتھر سے دور کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے طاق عدد میں پتھروں کے ساتھ دور کرے جو کم از کم تین ہوں اور زیادہ سے زیادہ اتنے ہوں کہ ان سے خارج شدہ گندگی دور ہو جائے اور جگہ صاف ہو جائے۔ اگر یہ طاق ہوں تو ٹھیک ورنہ ایک اور پتھر زیادہ کر دے جس سے جفت عدد طاق ہو جائے۔ 3۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نیند سے بیدار ہونے والا اپنی ہتھیلی کو برتن کے اندر نہ لے جائے اور نہ ہی اس کے ساتھ تری کو چھوئے یہاں تک کہ اسے تین دفعہ دھو لے۔ کیونکہ رات کی نیند عموماً لمبی ہوتی ہے اور سونے والے کا ہاتھ جسم میں اِدھر اُدھرگھومتا رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ گندگی کو چھو جائے اور اسے اس کا علم ہی نہ ہو۔ اس لیے شرعی نظافت کے حصول کے لیے اس کے لیے اسے دھونا مشروع کیا گیا ہے۔