الباسط
كلمة (الباسط) في اللغة اسم فاعل من البسط، وهو النشر والمدّ، وهو...
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا اور ذوالحلیفہ کے مقام سے ہدی (قربانی) کا جانور ساتھ لے لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے عمرہ کا تلبیہ پڑھا پھر اس کے بعد حج کا تلبیہ پڑھا۔ لوگوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا۔ بعض لوگ قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے، چنانچہ وہ ذو الحلیفہ سے انہیں لیکر چلے اور بعض وہ تھے جو قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہیں لائے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ (مکہ) پہنچ گئے تو لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص قربانی کا جانور ساتھ لایا ہے، اس کے لئے کوئی حرام چیزحلال نہیں ہے جب تک کہ وہ حج کو پورا نہ کرلے اور جو شخص قربانی کا جانور ساتھ نہ لایا ہے تو وہ (عمرہ کے لئے) خانہ کعبہ کا طواف کرے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے اوربال کتروا کر (عمرہ کا) احرام کھول دے (یعنی جو چیزیں حالت احرام میں ممنوع تھیں انہیں مباح کر لے) اور اس کے بعد حج کے لئے دوبارہ احرام باندھے اور قربانی کرے۔ جس شخص کو قربانی کا جانور میسر نہ ہو وہ ایام حج میں تین روزے رکھے اورسات روزے تب رکھےجب وہ اپنے اہل و عیال میں واپس پہنچ جائے۔ بہر کیف رسول اللہ ﷺ نے مکہ پہنچ کر (عمرہ کے لئے) خانہ کعبہ کا طواف کیا اور سب سے پہلےحجر اسود کو استلام کیا۔ پھر طواف کے سات چکروں میں سے تین چکروں میں رمل فرمایا (یعنی تیز رفتاری سے چلے) اور باقی چار چکروں میں اپنی معمول حالت میں چلے، پھر خانہ کعبہ کے گرد طواف پورے کرنے کے بعد مقام ابراہیمی پر دو رکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد (خانہ کعبہ) سے لوٹ کر صفاء پر آئے اور صفا و مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔ پھر ان چیزوں میں سے کسی کو اپنے اوپر حلال نہیں فرمایا جن کو احرام کی وجہ سے اپنے اوپر حرام کیا تھا (یعنی احرام سے باہر نہ آئے) یہاں تک کہ آپ ﷺاپنے حج سے فارغ ہوگئے اور قربانی کے دن اپنی قربانی ذبح کی اور پھر مکہ واپس لوٹ آئے اور طواف افاضہ کیا اور ان چیزوں کو جن کو احرام کی وجہ سے اپنے اوپر حرام کیا تھا حلال کرلیا اور لوگوں میں سے جو لوگ اپنے ساتھ قربانی لائے تھے انہوں نے بھی اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا۔ (ایک اور روایت میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ) میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ جب آپ ﷺ مکہ تشریف لائے تو طواف شروع کرتے وقت پہلے حجر اسود کو استلام کیا اور (طواف کے سات چکروں میں سے) تین چکروں میں رمل کیا۔
نبی ﷺ جب اپنے اس حج کے لیے اہل مدینہ کے میقات ذو الحلیفہ کی طرف روانہ ہوئے، جس میں آپ ﷺ نے بیت اللہ، مناسکِ حج اور لوگوں کو الوداع کہا، لوگوں تک اپنا پیغام رسالت پہنچایا اور اس پر انھیں گواہ بنایا، تو آپ ﷺ نے عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھا۔ آپ ﷺ حج قران کر رہے تھے۔ حج قران تمتع کہلاتا ہے۔ لوگوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمتع کیا۔ چنانچہ ان میں سے بعض نے تو عمرہ و حج دونوں کی نیت سے احرام باندھا اور بعض نے صرف عمرہ کے لیےاحرام باندھا اور اس سے فارغ ہونے کے بعد دل میں حج کی نیت رکھی، جب کہ کچھ لوگوں نے اکیلے حج کی نیت سے احرام باندھا۔ نبی ﷺ نے لوگوں کو ان تینوں صورتوں میں اختیار دیا تھاکہ وہ جیسے چاہیں، کر لیں۔ نبی ﷺ اور آپ ﷺ کے کچھ صحابہ ذو الحلیفہ ہی سے اپنے ساتھ ہدی کا جانور لے کر چلے تھے، جب کہ بعض لوگوں نے ہدی کے جانور اپنے ساتھ نہیں لیے تھے۔ جب وہ مکہ کے قریب پہنچے، تو آپ ﷺ نے ان لوگوں کو جو ہدی کا جانور ساتھ نہیں لائے تھے اور انھوں نے یا تو اکیلے حج کی نیت کر رکھی تھی یا پھر عمرہ و حج دونوں کی نیت کے ساتھ احرام باندھا تھا، ترغیب دلائی کہ وہ حج کی نیت کو فسخ کرتے ہوئے اسے عمرہ بنا دیں۔ جب انھوں نے طواف اور سعی کر لی، تو آپ ﷺ نے انھیں تاکید فرمائی کہ اپنے بال کتروا کر عمرہ کا احرام کھول دیں اور پھر حج کے لیے احرام باندھیں اور قربانی دیں؛ کیوںکہ انھوں نے ایک ہی سفر میں دو عبادتیں کی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جسے قربانی کا جانور دستیاب نہ ہو، وہ دس دن روزے رکھے۔ تین دن ایام حج میں۔ ان کا وقت تب سے شروع ہو جاتا ہے، جب آدمی عمرہ کے لیے احرام باندھتا ہے اور سات اس وقت رکھے، جب اپنے گھر والوں کے پاس واپس لوٹ آئے۔ نبی ﷺ جب مکہ تشریف لائے، تو حجر اسود کو استلام کیا اور کعبہ کےگرد سات چکر لگائے۔ تین میں رمل کیا؛ کیوںکہ یہ مکہ آنے کے فورا بعد کیا جانے والا طواف تھا اور چار چکروں کو چل کر پورا کیا۔ پھر مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر صفا پر آئے اور اس کے اور مروہ کے مابین سات چکر لگائے؛ دونوں علامتوں کے درمیان آپ ﷺ دوڑتے اور باقی مسافت چل کر طے کرتے۔آپ ﷺ نے تب تک اپنا احرام نہیں کھولا، جب تک اپنا حج پورا کر کے یوم النحر میں قربانی ذبح نہیں کرلیا۔ جب آپ ﷺ اپنے حج، جمرہ عقبہ کی رمی، یوم النحر کو قربانی ذبح کرکے اور اپنے سر کو مونڈ کر فارغ ہو چکے، جسے تحلل اول کہا جاتا ہے، تو اس دن صبح کو بیت اللہ کی طرف لوٹ گئے اور اس کا طواف (یعنی طواف افاضہ) کیا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے لیے ہر اس شے کو حلال کر لیا، جس سے آپ ﷺ (احرام کی وجہ سے) اجتناب کر رہے تھے، حتی کہ بیویوں سے مباشرت بھی۔ آپ ﷺ کے جو صحابہ اپنے ساتھ ہدی کا جانور لائے تھے، انھوں نے بھی ویسے ہی کیا، جیسے آپ ﷺ نے کیا ۔