الكبير
كلمة (كبير) في اللغة صفة مشبهة باسم الفاعل، وهي من الكِبَر الذي...
ابومسعود انصاری - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ ایک آدمی نکیل پڑی ہوئی اونٹنی لے کر آیا اور نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ (یارسول اللہ!) یہ اونٹنی اللہ کے راستہ میں (دیتا ہوں) آپ ﷺ نے فرمایا تمہیں قیامت کے دن اس کے بدلے میں ایسی سات سو اونٹنیاں ملیں گی کہ ان سب کی نکیل پڑی ہوئی ہوگی ۔
ایک شخص نبی ﷺ کی خدمت میں ایک نکیل پڑی اونٹنی لے کر آیا۔"مخطومة" سے مراد ہے کہ وہ رسی سے بندھی ہوئی تھی۔ یہ رسی لگام کی طرح کی ہوتی ہے جس سے اونٹنی کو باندھا جاتا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ اونٹنی اللہ کے راستے میں وقف ہے۔ یعنی میں اسے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے وقف کرتا ہوں تاکہ یہ جنگ میں کام آئے۔ آپ ﷺ نے اسے فرمایا: "تمہیں اس کے بدلے سات سو اونٹنیاں ملیں گے۔" کیوں کہ اللہ تعالی نیکی کا دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی کئی گنا بڑھا کر اس کا بدلہ دیتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس قول میں ارشاد فرمایا کہ: (مَثَل الذين ينفقون أموالهم في سبيل الله كَمثَلِ حبة أنبتت سبع سنابل في كل سنبلة مائة حبة والله يضاعف لمن يشاء والله واسع عليم)[البقرة: 261]. ترجمہ: جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کر دے اور اللہ تعالیٰ کشادگی واﻻ اور علم واﻻ ہے۔ "كُلُّهَا مَخْطُومَةٌ "۔ نکیل کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے اونٹنی کا مالک اونٹنی کے ساتھ جو چاہے کر سکتا ہے۔ یہ حسن جزاء کی علامت ہے۔جیسے یہ شخص نبی ﷺ کے پاس اونٹنی کو اس حال میں لے کر آیا کہ وہ نکیل سے بندھی ہوئی تھی اسی طرح اللہ بھی اسے ایسی سات سو اونٹنیاں بطورِ جزاء دیں گے جو سب کی سب نکیل سے بندھی ہوں گی تاکہ وہ ان کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہے کر سکے۔ یہ پورا پورا بدلہ ہے۔