البحث

عبارات مقترحة:

الحكيم

اسمُ (الحكيم) اسمٌ جليل من أسماء الله الحسنى، وكلمةُ (الحكيم) في...

الملك

كلمة (المَلِك) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فَعِل) وهي مشتقة من...

مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈالے پھر(نكال كر) دیکھے کہ وه سمندر كا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے!"

شرح الحديث :

مفہوم حدیث: اگر آپ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں تو اپنی انگلی کو سمندر میں ڈال کر اٹھائیں اور پھر دیکھیں کہ وہ کتنا پانی واپس لے کر آتی ہے؟ سمندر کے مقابلے میں، وہ اپنے ساتھ کچھ بھی واپس لے کر نہیں آئے گی۔ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی حقیقت یہی ہے ۔ دنیا کے قلیل المدت ہونے اور اس کی لذتوں کے فانی ہونے کی آخرت کے دوام اور اس کی لذتوں اور نعمتوں کی ابدیت کے ساتھ وہی نسبت ہے، جو انگلی میں لگ جانے والے پانی کی نسبت بقیہ سمندر کے ساتھ ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: "فما متاع الحياة الدنيا في الآخرة إلا قليل" (التوبة: 38) ترجمہ: دنیاوی زندگی كا ساز و سامان تو آخرت کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ مخلوق کو دنیا کی جو کچھ بھی لذتیں اور نعمتیں دی گئی ہیں، ان سے بندہ ایک مختصر وقت کے لیے لطف اندوز ہوتا ہے جو مکدرات سے بھرا ہوتا ہے۔ فخر اور ریاکاری کے لیے انسان تھوڑے عرصے کے لیے ان سے زیب و زینت اختیار کرتا ہے، پھر یہ سب کچھ جلد ہی فنا ہو جاتا ہے اور محض حسرت و ندامت باقی رہ جاتی ہے: (وما أوتيتم من شيء فمتاع الحياة الدنيا وزينتها وما عند الله خير وأبقى أفلا تعقلون) [القصص: 60]. ترجمہ: اور تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے وه صرف زندگی دنیا کا سامان اور اسی کی رونق ہے، ہاں اللہ کے پاس جو ہے وه بہت ہی بہتر اور دیرپا ہے۔ کیا تم نہیں سمجھتے؟ اللہ کے پاس جو دائمی نعمتیں اور خوشگوار زندگی، محلات اور خوشیاں ہیں وہ اپنی کیفیت و مقدار کے اعتبار سے زیادہ بہتر اور زیادہ پائیدار اور ہمیشہ رہنے والی ہیں۔


ترجمة هذا الحديث متوفرة باللغات التالية