زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے: ’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْهَرَمِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ اللَّهُمَّ آتِ نَفْسِي تَقْوَاهَا وَزَکِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَکَّاهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَمَوْلَاهَا اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا‘‘۔ ترجمہ: اے الله! میں عاجزی، سُستی، بخیلی، بڑھاپے اور عذاب قبر سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ! میری ذات کو تقوی عطا فرما اور اسے پاکیزہ کر دے، تو ہی اسے بہتر پاکیزگی دینے والا ہے۔ تو ہی اس کا ولی و مالک ہے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے، ایسے دل سے جس میں خوف نہ ہو، ایسے نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو۔
شرح الحديث :
پناہ مانگنا قلبی عبادات میں سے ہے جس کو صرف اللہ تعالی ہی کے لیے خاص کرنا ہے۔ عاجزی اور سستی دونوں ساتھی ہیں اور بھائی بھائی ہیں جو دنیا اور آخرت کی بھلائی کی راہ مسدود کردیتے ہیں۔ یہ دونوں عجز، کاہلی، اور لاپرواہی کا شاخسانہ ہوتے ہیں۔ اگر رکاوٹ خود بندے کی پیدا کردہ ہو تو اسے "کسل" (سستی) کہا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے منافقوں کو اس کے ساتھ متصف کیا ہے۔’’ وإذا قاموا إلى الصلاة قاموا كسالى‘‘۔ ترجمہ: جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی سے بھرے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں ــــــــــ اِس لیے کہ ان کا ایمان کمزور ہوتا ہے اور دلوں میں بیماری ہوتی ہے۔ سستی بیمار نفس ہی میں ہوتی ہے۔ اگر کام میں رکاوٹ بندے کی طرف سے پیدا نہ کی گئی ہو بلکہ یہ اس وجہ سے ہو کہ اس میں اس کے کرنے کی طاقت نہیں ہے تو اسے عاجزی کہا جاتا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ "بخل" کا معنی ہے مال کو روکے رکھنا اور اسے نیکی کے کاموں اور نفع بخش مصارف میں خرچ کرنے میں تنگدلی برتنا۔ نفس میں مال کی محبت اور اس کو جمع کرنے کی چاہت ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اسے اکٹھا کرے اور ان مصارف میں اسے خرچ نہ کرے جن میں خرچ کرنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے۔ " هرِم " کا معنی یہ ہے کہ انسان لاچاری و مجبوری کی عمر تک جا پہنچے اور اتنا بوڑھا ہو جائے کہ اس کی طاقت ختم ہوجائے، عقل سٹھیا جائے اور ہمت جواب دے جائے۔ پھر نہ تو وہ دنیا کی کسی بھلائی کو حاصل کر سکے او نہ ہی آخرت کی بھلائی کو۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں ’’وَمَن نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ‘‘ ترجمہ: اور جسے ہم بوڑھا کرتے ہیں اسے پیدائشی حالت کی طرف پھر الٹ دیتے ہیں۔ "عذاب القبر": عذاب قبر برحق ہے۔ اس پر اہل سنت و جماعت کا اجماع ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے " وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ"۔ ترجمہ ”ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے، ان کے دوباره جی اٹھنے کے دن تک“۔قبر یا تو جنت کے باغات میں سے ایک باغیچہ ہو گی یا پھر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ اسی لیے بندے کے لیے مشروع کیا کہ وہ ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اور اس کی خوفناکی اور شدت سے پناہ مانگے۔ " اللهم آت نفسي تقواها: یعنی میرے نفس کو احکام کی بجاآوری اور محرمات سے پرہیز کا خوگر بنا۔ ایک قول کی رو سے یہاں تقوی کا معنی وہ ہو گا جو فجور کے بالمقابل ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے "فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا"۔ ترجمہ ”پھر سمجھ دی اس کو بدکاری کی اور بچ کر چلنے کی“۔ " وزكها" یعنی برائیوں سے اسے پاک فرما۔ " أنت خير من زكاها"۔ یعنی نفس کو تیرے سوا کوئی اور پاک کرنے والا نہیں ہے اور اے رب نہ ہی تیرے سوا کوئی اور اسے پاک کر سکتا ہے۔ " أنت وليها" تو ہی اس کا مددگار اور اسے سنبھالنے والا ہے۔ " ومولاها"۔ یعنی تو ہی اس کا مالک اور اس پر نعمتوں کا نزول کرنے والا ہے۔ " اللهم إني أعوذ بك "۔ یعنی میں تیری حمایت میں آتا ہوں اور تجھ سے پناہ طلب کرتا ہوں۔ " من علم لا ينفع"۔ اس سے مراد وہ علم ہے جو بالکل بے سود ہو یا پھر وہ علم جس پر بندہ عمل نہ کرے اور وہ قیامت کے دن اس کے خلاف حجت بنا کھڑا ہو۔ جیسا کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ قرآن یا تو تمہارے حق میں حجت ہو گا یا تمہارے خلاف۔ وہ علم جو نفع بخش نہیں ہوتا وہ باطنی اخلاق کو نہیں سنوارتا چنانچہ یہ نہیں ہوتا کہ ان سے سرایت کرتا ہوا ظاہری اعمال تک اس کا اثر پہنچے اوریوں وہ پورا ثواب پا سکے۔ " قلب لا يخشع"۔ یعنی ایسا نفس جو اللہ کے ذکر کے وقت اور اس کا کلام سن کر ڈر میں مبتلا نہ ہو۔ ایسا دل بہت سخت ہوتا ہے۔ آپ ﷺ اللہ تعالی سے دعا فرما رہے ہیں کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے سے ڈرنے لگیں، اس کی چاہت میں ان کی خوشی ہو، ان کا سینہ اس میں ڈالے گئے نور کی بدولت روشن ہو جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو دل سخت ہو جا ئے گا چنانچہ ضروری ہے کہ اس سے اللہ کی پناہ مانگی جائے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے "فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم" ۔ ترجمہ: ”اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل سخت ہو گئے ہیں“۔ " ونفس لا تشبع": یعنی دنیائے فانی کی حرص کی وجہ سے اور طمع و لالچ اور لمبی امیدیں پالنے کے بسبب سیر نہیں ہوتا۔ " ومن دعوة لا يستجاب لها"۔ یعنی میں ایسے اسباب اور مقتضیات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جن کی وجہ سے دعا رد کر دی جاتی ہے۔ دعا کی قبولیت نہ ہونا دھتکارنے اور غضب کی علامت ہے کیونکہ دعا کا رد ہو جانا دراصل دعا مانگنے والے کے رد ہونے کی علامت ہے برخلاف مومن کی دعا کے جو کبھی رد نہیں ہوتی۔ یا تو دنیا ہی میں وہ قبول ہو جاتی ہے یا پھر اس دعا کی بدولت اللہ تعالی اس سے اس کے بقدر مصیبت دور کر دیتا ہے یا پھر یہ آخرت کے لیے رکھ چھوڑی جاتی ہے۔مومن کی دعا کبھی بھی ضائع نہیں ہوتی برخلاف کافر کی دعا کے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے ’’وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ‘‘۔ ترجمہ: ”اور کافروں کی دعا محض بے اﺛر اور بےراه ہے“۔