العزيز
كلمة (عزيز) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وهو من العزّة،...
بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: " جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا عمل ضائع و رائیگاں ہو گیا۔"
اس حدیث میں نماز عصر کو جان بوجھ کر چھوڑنے والے کی سزاء کا بیان مستفاد ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے نماز عصر کا خاص طور پر اس لئے ذکر فرمایا کہ دن بھر کے مشاغل کی بناء پر ہونے والی تھکان سے اس نماز میں ٹال مٹول وتاخیر کا زیادہ امکان پایا جاتا ہے؛ نیز دیگر دوسری نمازوں کے فوت و ضائع ہونے کی بنسبت اس نماز کا فوت ہونا زیادہ قبیح و بدتر ہے کیونکہ یہ دن کی وہ درمیانی نماز ہے جس کی محافظت کا خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں حکم فرمایا ہے: " حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ"(سورۃ البقرۃ: 238)" (ترجمہ: نمازوں کی حفاظت کرو، بالخصوص درمیان والی نماز کی)اس ضیاع نماز کے نتیجہ میں مرتب ہونے والی سزاء یہ ہے کہ اس نماز کے چھوڑنے والے کے اعمال، اس کے(عظیم) ثواب سے محرومی کی بناء پر ضائع و رائیگاں ہوجاتے ہیں، نیز ایک قول یہ بھی ہے کہ جس نے اس نماز کے چھوڑنے کو حلال وجائز سمجھایا اس کے وجوب کا انکار کیا تو ایسی صورت میں ضیاع عمل سے مراد کفر کا ارتکاب ہوگا اور بعض علماء نے اس دلیل کی روشنی میں یہ فتویٰ دیا کہ نماز عصر کا چھوڑنے والا کفر کا مرتکب ہوگا کیونکہ اعمال کا ضیاع، ارتداد ہی کی صورت میں ہوتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں تغلیظ (اس عمل کی قباحت و برائی بیان کرنا) کے طور پر ضیاع عمل کے الفاظ وارد ہوئے ہیں؛ یعنی جس نے یہ نماز چھوڑدی تو گویا اس کے عمل ضائع ہوگئے۔ نماز عصر کے خصوصی فضائل میں سے یہ ہے کہ جس نے اس کو چھوڑ دیا تو اس کے عمل ضائع و برباد ہوگئے کیونکہ یہ نماز بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔