القاهر
كلمة (القاهر) في اللغة اسم فاعل من القهر، ومعناه الإجبار،...
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”دو شخص اس طرح پاخانے کے لیے نہ نکلیں کہ اپنی شرم گاہیں کھولے پاخانہ کر رہے ہوں اور باتیں بھی کر رہے ہوں۔ بلاشبہ اللہ عزوجل اس بات پر ناراض ہوتا ہے"۔
حدیث کا مفہوم: "لا يخرج الرَّجُلان يَضْرِبَان الغَائِط "یعنی دو آدمی قضائے حاجت کے لیے نہ نکلیں۔ آپ کا فرمان: "الرَّجُلان"(دو آدمی) یہ حکم دو مردوں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ سارے مردوں اور عورتوں کو شامل ہے۔ عورتوں کے معاملے میں تو وعید مزید سخت اور سنگین ہو جاتی ہے۔ اس حدیث میں دو آدمیوں کا ذکر اکثر وقوع کی بنیاد پر ہوا ہے۔ اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ چنانچہ اس حکم میں ہر وہ شخص شامل ہوگا، جو دوسرے کے سامنے شرم گاہ کھول کر بیٹھے۔ "كاشِفَين عن عَوْرَتِهِمَا يَتَحَدَّثَان"یعنی وہ اس حالت میں قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوں کہ دونوں کی شرم گاہیں کھلی ہوئی ہوں، دونوں ایک دوسرے کی شرم گاہ دیکھ رہے ہوں اور ضرورت ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہوں۔ ایک دوسرے کھلا ہوا ہو اور ایک دوسرے کی پردے والی چیزیں دیکھ رہے ہوں اور بلا ضرورت ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہوں۔ ابن ماجہ کی روایت میں ہے : "لا يَتَنَاجى اثنان على غَائِطِهما يَنظر كل واحد منهما إلى عورة صاحبه"کہ دو آدمی قضائے حاجت کے وقت آپس میں باتیں نہ کریں اور نہ ہی ایک دوسرے کی شرم گاہ دیکھیں۔ ابن حبان کی روایت کے مطابق: "لا يَقعد الرَّجلان على الغِائط يَتَحَدَّثَان"۔ دو آدمی اس حالت میں قضائے حاجت نہ کریں کہ ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہوں۔ "فإن الله -عَز وجلَّ- يَمْقُتُ على ذلك" بے شک اللہ عزوجل اس سے ناراض ہوتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے کام کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ "على ذلك"اس دونوں کاموں کی طرف اشارہ ہے: قضائے حاجت کے لیے اپنی شرم گاہیں ایک دوسرے کے سامنے کھول کر بیٹھنا اور قضائے حاجت کے وقت باتیں کرنا۔ مسلمان پر واجب ہے کہ جب کسی کے ساتھ قضائے حاجت کے لیے نکلے، تو ایک دوسرے سے اپنے ستر کی حفاظت کرے اور آپس میں کوئی بات نہ کرے، الا یہ کہ بات کرنا انتہائی ضروری ہو، مثلا کوئی پریشانی لاحق ہونے کی وجہ سے مدد مانگنی پڑے یا کسی کو ضرر سے بچانے کے لیے تنبیہ کرنے پڑے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ بسا اوقات واجب ہوتا ہے۔