البحث

عبارات مقترحة:

الرءوف

كلمةُ (الرَّؤُوف) في اللغة صيغةُ مبالغة من (الرأفةِ)، وهي أرَقُّ...

الأعلى

كلمة (الأعلى) اسمُ تفضيل من العُلُوِّ، وهو الارتفاع، وهو اسمٌ من...

الحفي

كلمةُ (الحَفِيِّ) في اللغة هي صفةٌ من الحفاوة، وهي الاهتمامُ...

افعالِ عباد
(أفعال العباد)


من موسوعة المصطلحات الإسلامية

المعنى الاصطلاحي

وہ اعمال و اقوال جو انسان سے صادر ہوتے ہیں۔

الشرح المختصر

’افعالِ عباد‘ (بندوں کے افعال) ایمان بالقدر کے باب کے اہم اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ اس سے مراد انسان سے صادر ہونے والا ہر ’عمل‘ جیسے کھڑا ہونا، بیٹھنا، حرکت کرنا، پُرسکون ہونا یا ’قول‘ جیسے گفتگو وغیرہ ہے، چاہے یہ اچھے ہوں جیسے نیک قول و فعل وغیرہ یا پھر برے ہوں جیسے تمام گناہ اور برائیاں۔ بندے حقیقی فاعل ہیں اور اللہ ان کے افعال کا خالق ہے، یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ افعال بنفس نفیس اللہ تعالی کے ہیں۔ بندوں میں کوئی مؤمن ہے اور کوئی کافر، کوئی متقی ہے تو کوئی فاسق و فاجر، کوئی نمازی ہے اور کوئی روزے دار۔ بندوں کو اپنے اعمال کرنے پر قدرت حاصل ہے اور وہ ارادے کے بھی مالک ہوتے ہیں۔ جب کہ اللہ تعالیٰ ان کی قدرت اور ارادے کی تخلیق کرتا ہے، چنانچہ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہے وہ اس کا علم رکھنا، اس کی قدرت ومشیت اور اس کا تکوین (ایجاد) ہے۔ اور جس کا تعلق مخلوق سے ہے وہ ان کا فعل، اور ان کی حرکات وسکنات ہیں۔ بندوں کے افعال کا مسئلہ تین بنیادوں پر قائم ہیں: 1- اس بات پر ایمان رکھنا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی اعیان، اوصاف اور افعال وغیرہ میں سے ہر چیز کا خالق ہے اور یہ کہ اس کی مشیئت ساری کائنات کو محیط ہے۔ چنانچہ اس کائنات میں کوئی بھی چیز اس کی مشیت اور اس کے ازلی علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ 2- اس بات پر ایمان لانا کہ بندوں کو قدرت اور ارادہ حاصل ہے جس سے ان کے افعال واقع ہوتے ہیں اور یہ کہ بندوں کی قدرت تاثیر رکھتی ہے جیسے دیگر تمام اسباب میں تاثیر ہوتی ہے اور یہ کہ بندے حقیقی طور پر ان افعال کو اپنے اختیارِ محض سے کرتے ہیں اور اس پر وہ جزا کے مستحق ہوں گے جو یا تو ستائش اور ثواب کی شکل میں ہوگی یا پھر مذمت اور سزا کی صورت میں۔ 3- تقدیر کو بلا کسی جھگڑے اور بحث ومباحثے کے، اور اس کی کیفیت کے بارے میں سوال اور چوں چراں کیے بغیر تسلیم کرنا کیونکہ تقدیر اللہ کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔