الحليم
كلمةُ (الحليم) في اللغة صفةٌ مشبَّهة على وزن (فعيل) بمعنى (فاعل)؛...
وہ غلام جس کی غلامی کامل ہو اور جس میں آزادی کے اسباب اور مقدمات میں سے کوئی چیز نہ پائی جائے، خواہ وہ غلام مرد ہو یا عورت۔
غلام کی دو حالتیں ہیں: 1۔ وہ خالص غلام ہو اور اس میں (آزادی کا) کوئی شائبہ نہ ہو۔ اسے ’قِن‘ کہا جاتا ہے چاہے وہ ایک ہی شخص کی ملکیت ہو یا ایک سے زیادہ اشخاص کی۔ اس صورت میں یہ ’مشترک قن‘ہوگا۔ 2۔ وہ غلام غیر خالص ہو: اس سے مراد وہ غلام ہے جس کا بعض حصہ جیسے اس کا نصف یا چوتھائی حصہ آزاد ہوچکا ہو اور باقی ماندہ ابھی تک غلام ہو۔ اسے ’مُبَعّض‘ کا نام دیا جاتا ہے، یا ایسا غلام جس میں آزادی کا سبب آچکا ہو۔ ایسے غلام کی تین قسمیں ہیں: 1- امّ ولد: اس سے مراد وہ باندی ہے جس نے اپنے آقا سے بچے کو جنم دیا ہو۔ ولادت کی وجہ سے یہ اس بات کی مستحق ہوتی ہے کہ اپنے آقا کی وفات کے بعد آزاد ہوجائے۔ 2- مُكاتَب: اس سے مراد وہ غلام ہے جس نے اپنے آپ کو قسط وار ادا کیے جانے والے مال کے عوض اپنے آقا سے خرید لیا ہو۔ اس مال کی ادائیگی کے ساتھ ہی وہ آزادی کا حق دار ہو جاتا ہے۔ 3- مُدَبَّر: ’تدبیر‘ کا معنی یہ ہے کہ آقا اپنے غلام کو اپنی (وفات کے) بعد آزاد کردے یعنی وہ آقا کی وفات کے ساتھ ہی آزاد ہوجائے۔ وہ غلام جس کی آزادی کی وصیت کی گئی ہو یا پھر جس کی آزادی کسی مخصوص صورت حال یا مدت کے ساتھ مشروط ہو وہ بھی اسی کے ہم معنی ہے۔ ان تینوں اقسام میں ملکیت کامل طور پر پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اگر مملوک لونڈی ہو تو مالک کے لیے اس کے ساتھ جماع کرنا جائز ہے، تاہم اس میں آزادی کا سبب آ جانے کی وجہ سے غلامی ناقص ہے۔
القِنّ: غلام جب وہ اور اس کے ماں باپ مملوک ہوں۔ ایک قول کی رو سے ’قِن‘ سے مراد وہ خالص غلام ہے جس میں آزادی کا شائبہ بھی نہ ہو۔ ’ِقن‘ کا لفظ دراصل ’قِنْیہ‘سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے: ’ملکیت‘۔ اس لیے کہ وہ اور اس کے ماں باپ مملوک (دوسرے کیملکیت) ہیں۔