الإله
(الإله) اسمٌ من أسماء الله تعالى؛ يعني استحقاقَه جل وعلا...
رات کو نکلنے والے پرندوں میں سے ایک چھوٹا سا پرندہ.
’ھامہ‘ سے مراد الو‘ وغیرہ کی طرح رات کو نکلنے والا ایک پرندہ ہے۔ اہل جاہلیت ’ھامہ‘ سے متعلق دو باطل اعتقاد رکھتے تھے: اول: ان کا عقیدہ تھا کہ جب کوئی شخص قتل کر دیا جاتا ہے تو اس کی ہڈیاں یا اس کی روح ’ھامہ‘ بن جاتی ہے جو اس کی قبر سے نکل کر اڑتا ہے اور چلاتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا انتقام لے لیا جائے۔ یہ عقیدہ تناسخ ارواح کے قائل افراد کے عقیدے کے مثل ہے جن کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ مرنے والوں کی ارواح حیوانات کے اجسام میں منتقل ہو جاتی ہیں اور بعث بعد الموت اور حساب وکتاب کے لیے دوبارہ زندہ کئے جانے جیسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ یہ تمام باطل عقائد ہیں جن کے ابطال اور تکذیب کے لیے اسلام آیا ہے۔ دوم: ان کا عقیدہ تھا کہ اگر ’ھامہ‘ کسی گھر پر بیٹھ کر آوازیں نکالے اور چیخے تو یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اس گھر والا مر جائے۔ ان کے نزدیک یہ اس گھر والے کی موت کے قریب ہونے کی دلیل ہوتی تھی۔ چنانچہ وہ اس سے برا شگون لیا کرتے تھے۔ بعض نادان لوگوں کی یہ غلطی ہے جو اس کی آواز اور اس کی چیخ سن کر یہ کہتے ہیں کہ: ”خَيْرًا إِنْ شَاءَ اللهُ“ یا ”خَيراً يا طَيْر“۔ ایسا کہنا بدعت ہے اور اگر اس کےساتھ یہ عقیدہ شامل ہو کہ یہ کسی مصیبت یا نقصان پہنچنے کا سبب ہے تو یہ شرک بن جاتا ہے۔
الھامۃ: ’سر‘۔ اسی سے قوم کے سردار کو ھامۃ القوم کہتے ہیں۔ ایک قول کی رو سے ’ھامہ‘ کا معنی ہے لاش, اس کا اطلاق رات کو نکلنے والے پرندوں میں سے ایک چھوٹے سے پرندے پر بھی ہوتا ہے جو قبرستانوں میں رہتا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مراد ’الو‘ ہے۔