دجال کا ظہور (دجال کا نکلنا) (دَجَّال)

دجال کا ظہور (دجال کا نکلنا) (دَجَّال)


الحديث العقيدة

المعنى الاصطلاحي :


آخری زمانے میں اولادِ آدم ہی میں سے لوگوں کی ابتلا و آزمائش کے لیے ایک کانے اور جھوٹے آدمی کا ظاہر ہونا جس کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ عجائبات اور غیر معمولی عادات ظاہر فرمائے گا۔

الشرح المختصر :


قیامت کی بڑی علامات اورنشانیوں پر ایمان لانا اہلِ سنت و جماعت کا عقیدہ ہے۔ اسی میں اس بات پر ایمان رکھنا بھی شامل ہے کہ آخری زمانے میں مسیح دجال نکلے گا، اور بعینہ اسی شخص کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کرے گا اور اسے ایسی چیزوں پر قدرت دے دے گا جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کے دائرہ قدرت میں آتی ہیں، جیسے اس شخص کو زندہ کرنا جسے وہ قتل کردیا ہوگا، اس کے ساتھ دنیا کی رونق اور شادابی کا آنا، اس کی اپنی جنت اور دوزخ کا ہونا، زمین کے خزانوں کا اس کے ماتحت ہونا، اس کے بادلوں کو حکم کرنے پر ان کا برس پڑنا اور زمین کو اگانے کا حکم دینے پر اس کا اگانا۔ یہ سب کچھ اللہ کی قدرت اور اس کی مشیت سے ہوگا۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ اسے عاجز و بےبس کردے گا اور اس کے معاملے کو باطل کر دے گا۔ عیسی علیہ السلام اسے قتل کریں گے اور اللہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے گا۔ ’دجال‘ کا لفظ ’دَجَل‘سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے:’جھوٹ بولنا ‘اور ’غلط بات گھڑنا‘۔ ’دجال‘ سب سبے بڑا جھوٹا اوراللہ پر شدید ترین افترا پرداز اور جھوٹ گھڑنے والا ہوگا۔ وہ جھوٹ بول کر لوگوں کو اللہ کے دین سے ہٹائے گا، اور اصفہان کے یہودیوں میں سے ستر ہزار یہودی اس کا ساتھ دینے کے لیے اس کے ہمراہ نکلیں گے۔ انبیائے کرام نے اپنی قوموں کو اس سے ڈرایا ہے اور اپنی امتوں کو اس سے متنبہ کیا ہے اور اس کی کھلی اور صاف نشانیاں اور واضح اوصاف بیان کیے ہیں۔ رسول اللہﷺ نے بھی اس سے ڈرایا اور متنبہ کیا ہے اور اپنی امت کے لیے اس کی ایسی صفات بیان کی ہیں جو صاحبِ بصیرت پر مخفی نہیں ہیں: اسے مسیح دجال اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی داہنی آنکھ ممسوح (بالکل چٹ) اور پھولی ہوئی ہوگی۔ یا پھر اسے مسیح اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بہت ہی کم وقت میں زمین کو طے کر لے گا۔ جہمیہ، خوارج، بعض معتزلہ اور موجودہ دور کے کچھ قلم کاروں اور علم (سائنس) سے منسلک لوگوں نے اس کی حقیقت اور وجود کا انکار کیا ہے۔ حالاں کہ ان کے پاس متواتر نصوص کو جھٹلانے کے لیے اپنی عقل اور خواہش پرستی کے ماسوا کوئی دلیل نہیں ہے۔ لھٰذا اس طرح کے لوگوں کا اور ان کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔