ابن، بیٹا (الاِبْنُ)

ابن، بیٹا (الاِبْنُ)


الفقه أصول الفقه

المعنى الاصطلاحي :


وہ بیٹا جو نسب کے ذریعہ سے جنم لے۔

الشرح المختصر :


’ابن‘ سے مراد وہ نرینہ اولاد ہے جو بلا واسطہ کسی سے جنم لے۔ چاہے یہ جنم لینا طبعی طریقہ سے ہو یا مصنوعی تخم ریزی کے ذریعہ ہو۔ ’ابن‘ کی دو حالتیں ہوتی ہیں: 1- باپ کے ساتھ نسبت کے اعتبار سے: ہر وہ نرینہ اولاد جو صحیح اور حلال طریقہ سے اس کے گھر پیدا ہو یا اس نے فاسد عقدِ نکاح کی بنا پر جنم لیا ہو یا شرعی طور پر معتبر شبہ کی وجہ سے وطئ کے نتیجے میں جنم لے، یا مِلکِ یمین (کسی باندی سے جماع) کے نتیجے میں پیدا ہوا ہو۔ 2- ماں کے ساتھ نسبت کے اعتبار سے: ہر وہ نرینہ اولاد جسے عورت نے نکاح یا زناکاری کے نتیجہ میں جنم دیا ہو۔ بیٹے کے کچھ حقوق وواجبات ہیں۔ حقوق جیسے: نان ونفقہ، کفالت، تربیت اور تادیب وغیرہ ہیں، اور واجبات جیسے: والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنا ہے۔

التعريف اللغوي المختصر :


الابْنُ: ’نرینہ اولاد‘۔ کہا جاتا ہے ’فُلانٌ ابْنُ فُلانٍ‘ یعنی فلان کی نرینہ اولاد۔ اگر مطلقاً بولاجائے تو ابن سے بلا واسطہ نسبی نرینہ اولاد مراد ہوتی ہے، بسا اوقات رضاعی بیٹے اور بالواسطہ اولاد کو بھی کہا جاتا ہے، جیسے پوتا وغیرہ، اس کلمہ کی اصل ’بِنْوٌ‘ یا ’بَنَوٌ‘ ہے، ”البُنُوَّةُ“ سے مراد بیٹے کا باپ سے تعلق ہے۔