القيوم
كلمةُ (القَيُّوم) في اللغة صيغةُ مبالغة من القِيام، على وزنِ...
وہ خبر جسے اولِ سند سے آخر تک ایک ایسی جماعت نے روایت کیا ہو جن کا ان کی کثرت کی وجہ سے باہم جھوٹ پر متفق ہونا تصور نہیں کیا جا سکتا جب کہ اس کا مستند حس ہو۔
متواتر: وہ خبر ہے جسے ایسی بڑی جماعت نے نقل کیا ہو جو کسی مخصوص تعداد میں محصور نہ ہوں، جن کے سچا ہونے کا علم بدیہی (ضروری) طور پر حاصل ہوتا ہو، بایں طور کہ وہ ایسی جماعت ہوں جن کا جھوٹ پر اتفاق کرلینا ممکن نہ ہو، اور وہ سند کے شروع سے اس کے آخر تک اپنے ہم مثل لوگوں سے روایت کرتے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس حدیث کو صحابہ کی ایک بڑی تعداد روایت کرے اور صحابہ سے اسے تابعین کی ایک بڑی تعداد روایت کرے اور تابعین سے اسے تبع تابعین کی ایک بڑی تعداد روایت کرے اور یہ سلسلہ راویوں کے سب سے نچلے طبقے تک یوں ہی چلتا رہے۔ ’متواتر‘ کی دو قسمیں ہیں: پہلی قسم: متواترِ لفظی ومعنوی: وہ روایت جس میں نقل کرنے والوں کے الفاظ ایک ہوں۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جس میں مومنوں کا قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھنے کا ذکر ہے ۔ جس کے الفاظ یہ ہیں: ” أما إنَّكم سَتَرَوْنَ ربَّكم كما تَرَوْنَ هذا القمر لَيْلَة البَدْرِ لا تُضامُّون في رُؤيَتِه“ اسے امام بخاری (حدیث نمبر: 554) اور امام مسلم (حدیث نمبر: 633) نے روایت کیا ہے۔ دوسری قسم: متواترِ معنوی: جس میں راویوں کے مابین معنی پر تو اتفاق ہو لیکن الفاظ میں مطابقت نہ ہو۔ مثلاً وہ احادیث جن میں علو اور استواء کا ذکر ہے۔ متواتر کی اس کے قائل کے اعتبار سےتین اقسام ہیں: اول: قرآن کریم: جیسے قراءات عشر (دس قرائتیں)۔ دوم : متواتر حدیثِ نبوی۔ سوم : مختلف اوقات اورجگہوں میں عام لوگوں کی متواتر خبریں۔ عقائد وغیرہ کے باب میں قرآن اور صحیح حدیث کے ذریعہ استدلال کرنے میں اہلِ سنت متواتر اور آحاد کے مابین کوئی فرق نہیں کرتے۔
متواتر: ’پے در پے ہونا‘۔جیسے ”تَوَاتَرَتْ الإِبِلُ تَتَوَاتَرُ فَهِيَ مُتَواتِرَةٌ“ اس وقت کہا جاتا ہے جب اونٹ یکے بعد دیگرے بغیر کسی انقطاع کے آ رہے ہوں۔ تواتر اصل میں وتر سے ماخوذ ہے جس کامعنی ہے فرد، اور ’تواتر‘ کی ضد ’انقطاع‘ ہے۔
رمضانُ شهرُ الانتصاراتِ الإسلاميةِ العظيمةِ، والفتوحاتِ الخالدةِ في قديمِ التاريخِ وحديثِهِ.
ومنْ أعظمِ تلكَ الفتوحاتِ: فتحُ مكةَ، وكان في العشرينَ من شهرِ رمضانَ في العامِ الثامنِ منَ الهجرةِ المُشَرّفةِ.
فِي هذهِ الغزوةِ دخلَ رسولُ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلمَ مكةَ في جيشٍ قِوامُه عشرةُ آلافِ مقاتلٍ، على إثْرِ نقضِ قريشٍ للعهدِ الذي أُبرمَ بينها وبينَهُ في صُلحِ الحُدَيْبِيَةِ، وبعدَ دخولِهِ مكةَ أخذَ صلىَ اللهُ عليهِ وسلمَ يطوفُ بالكعبةِ المُشرفةِ، ويَطعنُ الأصنامَ التي كانتْ حولَها بقَوسٍ في يدِهِ، وهوَ يُرددُ: «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» (81)الإسراء، وأمرَ بتلكَ الأصنامِ فكُسِرَتْ، ولما رأى الرسولُ صناديدَ قريشٍ وقدْ طأطأوا رؤوسَهمْ ذُلاً وانكساراً سألهُم " ما تظنونَ أني فاعلٌ بكُم؟" قالوا: "خيراً، أخٌ كريمٌ وابنُ أخٍ كريمٍ"، فأعلنَ جوهرَ الرسالةِ المحمديةِ، رسالةِ الرأفةِ والرحمةِ، والعفوِ عندَ المَقدُرَةِ، بقولِه:" اليومَ أقولُ لكمْ ما قالَ أخِي يوسفُ من قبلُ: "لا تثريبَ عليكمْ اليومَ يغفرُ اللهُ لكمْ، وهو أرحمُ الراحمينْ، اذهبوا فأنتمُ الطُلَقَاءُ".