المجيد
كلمة (المجيد) في اللغة صيغة مبالغة من المجد، ومعناه لغةً: كرم...
ایک صفت جس کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو عمل کو ایمان سے مؤخر (الگ) کرتا ہے اور اسے ایمان کے مسمی میں داخل نہیں کرتا۔
’مرجئہ‘ اسلام کے فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے جس کا یہ عقیدہ ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے معصیت اور نافرمانی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی، جس طرح کفر کے ساتھ طاعت وفرماں برداری فائدہ نہیں دیتی، اور یہ کہ عمل ایمان کے مسمی سے خارج ہے۔ انہیں دو وجوہات کی وجہ سے ’مرجئہ‘ کا نام دیا گیا: پہلی وجہ: یہ عمل کو نیت اور ارادے سے مؤخر (جدا) جانتے ہیں۔ دوسری وجہ: یہ گناہگار مومن کو اللہ کی بخشش کی امید دلاتے ہیں۔ ایمان کی تعریف کے سلسلے میں ان کے متعدد اقوال ہیں جو یہ ہیں: 1۔مر جئہ جہمیہ: يہ جہم بن صفوان کے پیروکار ہیں جس کا خیال تھا کہ ایمان دل کی معرفت کا نام ہے اور یہ کہ نہ تو ایمان کے اجزاء ہوتے ہیں اور نہ ہی اہلِ ایمان اس میں ایک دوسرے پر کوئی فضیلت رکھتے ہیں۔ 2۔ مرجئہ اشاعرہ و ماتریدیہ: ان کے بقول ایمان تصدیق قلب کا نام ہے۔ ان میں سے کچھ کا کہنا یہ تھا کہ ایمان کم یا زیادہ نہیں ہوتا جیسے باقلانی، جوینی اور رازی کا کہنا تھا، اکثر ماتریدیہ کا یہی مذہب ہے۔ کچھ یہ کہتے کہ تصدیق قلبی میں دلائل و براہین کے واضح ہونے کی وجہ سے مضبوطی اور کمزوری کے اعتبار سے کمی بیشی ہوتی ہے۔ امام غزالی اور الایجی اسی کے قائل تھے۔ 3۔ مرجئہ حنفیہ: یہ ابوحنیفہ اور ان کے پیرو ہیں؛ ان کا کہنا تھا کہ ایمان زبان سے اقرار کرنے اور دل سے تصدیق کرنے کا نام ہے اور اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ بعض ماتریدی حضرات اس قول میں ان کی موافقت کرتے ہیں۔ 4۔ مرجئہ کرامیہ: ان کے بقول ایمان صرف زبان سے اقرار کرلینے کا نام ہے اور اس میں دل کا کوئی حصہ نہیں۔ ایمان کے بڑھنے یا کم ہونے کے سلسلے میں یہ مرجئہ کے مشہور اقوال ہیں۔ عمل کے واجب ہونے کے مسئلے میں مرجئہ کے دو گروہ ہیں: 1۔ غالی مرجئہ: ان کا عقیدہ یہ ہے کہ عمل واجب نہیں ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مومن جتنے بھی گناہ کر لے یا پھر واجبات کی ادائیگی میں جتنی بھی کوتاہی کرے وہ ہر صورت میں نجات پائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ: ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کچھ نقصان نہیں دیتا جیسے کفر کے ہوتے ہوئے کوئی نیکی فائدہ بخش نہیں ہوتی۔ 2۔ مرجئہ جو غالی نہیں ہیں: ان کا خیال یہ ہے کہ عمل واجب ہے اور گناہ گار روزِ قیامت اللہ کی مشیت کے تحت ہوگا۔ اگر اللہ چاہے گا تو اسے عذاب دے گا اور اگر چاہے گا تو اسے بخش دے گا۔ اس بات کی وجہ سے ان کے اور اہل سنت کے مابین اختلاف کم ہوجاتا ہے اور صرف ایمان کے مسمی میں اختلاف باقی رہ جاتا ہے۔
مرجئہ: یہ ’ارجاء‘سے ماخوذ ہے جس کا معنی ہے: ’مؤخرکرنا‘۔ کہا جاتا ہے: ’’أَرْجَأتُ الأمْرَ، وأَرْجَيْتَهُ‘‘ یعنی ’میں نے کام کو مؤخر کردیا‘۔یہ امید دلانے کے معنی میں بھی آتا ہے۔