نواقض الوضوء
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا: کیا میں بکری کے گوشت (کو کھانے) سے وضو کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ''اگر چاہو تو وضو کر لو اور اگر نہ چاہو تو نہ کرو''۔ اس نے عرض کیا: کیا میں اونٹ کے گوشت (کو کھانے) سے وضو کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:''ہاں! اونٹ کے گوشت ( کو کھانے) سے وضو کرو''۔ عرض کیا: میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں؟ آپ نے فرمایا: "ہاں"۔ اس نے مزید پوچھا کہ کیا میں اونٹوں کے بیٹھنے کے مقام میں نماز پڑھ لوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "نہیں"۔  
عن جابر بن سمرة -رضي الله عنه- أن رجلا سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم أَأَتَوضأ من لحوم الغنم؟ قال: «إن شِئْتَ فتوضأْ، وإن شِئْتَ فلا تَوَضَّأْ» قال أتوضأ من لحوم الإبل؟ قال: «نعم فتوضَّأْ من لحوم الإبِل» قال: أُصَلي في مَرَابِضِ الغَنم؟ قال: «نعم» قال: أُصلي في مَبَارِكِ الإبِل؟ قال: «لا».

شرح الحديث :


حدیث کا مفہوم: " أأتَوضأ من لحوم الغنم "۔ یہ صحابی کی طرف سے بکریوں کے گوشت کے بارے میں استفسار ہے کہ کیا اس کے کھانے سے وضو واجب ہو جاتا ہے، جب کہ نماز پڑھنے کا ارادہ ہو یا کوئی ایسا کام کرنا ہو، جس کے لیے طہارت شرط ہے؟ "إن شِئْتَ فتوضأ، وإن شِئْتَ فلا تَوَضَّأْ " ۔ آپ ﷺ نے اسے وضو کرنے اور نہ کرنے کے مابین اختیار دیا۔ دونوں ہی صورتیں جائز ہیں۔ "قال أتوضأ من لحوم الإبل"یعنی جب نماز پڑھنے کا یا کسی ایسے کام کا ارادہ ہو، جس کے لیے طہارت شرط ہے، تو کیا اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنا واجب ہو جاتا ہے؟ " نعم فتوضأ من لحوم الإبِل "۔ یعنی اونٹ کا گوشت کھا کر تمھارے لیے وضو کرنا واجب ہے، اگرچہ بہت کم ہی کیا کھایا ہو۔ جب کہ اس کے دودھ یا یخنی پینے سے وضو واجب نہیں ہوتا؛ کیوں کہ نبی ﷺ نے قبیلۂ عرینہ کے لوگوں کو اونٹ کا دودھ پینے کے بعد وضو کا حکم نہیں دیا تھا، حالاں کہ آپ ﷺ نے انھیں اونٹ کا دودھ پینے کا حکم دیا تھا اور یہ معلوم ہے کہ بوقت ضرورت وضاحت میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔ " قال: أُصَلي في مَرَابِضِ الغَنم؟ "۔یعنی جن جگہوں پر بھیڑ بکریاں ہوتی ہیں، کیا ان جگہوں پر نماز پڑھنا جائز ہے؟ "قال: «نعم» "۔ یعنی ان جگہوں پر تمھارے لیے نماز پڑھنا جائز ہے؛ کیوں کہ بھیڑ بکریوں سے کوئی خوف نہیں ہوتا۔ " قال: أُصلي في مَبَارِكِ الإبِل؟''۔ یعنی جن جگہوں پر اونٹ رہتے ہیں اور جہاں وہ بیٹھتے ہیں، کیا ان میں میرے لیے نماز پڑھنا جائز ہے؟ " قال: «لا» "۔ یعنی ان جگہوں میں نماز نہ پڑھو؛ کیوں کہ ان کے بدکنے کا خطرہ ہوتا ہے، جس سے ہو سکتا ہے کہ نمازی کو کوئی ضرر ٹھوکر وغیرہ کی شکل میں لاحق ہو جائے۔ بھیڑ بکریوں سے اس بات کا خوف نہیں ہوتا؛ کیوں کہ وہ پرسکون رہتی ہیں اور بہت کم بدکتی ہیں اور ان سے اذیت پہنچنے کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔ سبل السلام(1/99) فتح ذي الجلال والإكرام(1/264) توضيح الأحكام(/304 ، 305) تسهيل الإلمام(1/192 ، 195)  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية