العزيز
كلمة (عزيز) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وهو من العزّة،...
علی - رضی اللہ عنہ - سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ "میں رسول اللہ ﷺ کے پاس دو اوقات میں آتا تھا؛ کبھی رات کو اور کبھی دن کو۔جب میں رت کو آتا تو آپ ﷺ مجھے (اجازت دینے کے لئے) کھنکار دیتے تھے۔ "
حدیث کا مفہوم: "كان لي من رسول الله ﷺمَدْخَلان: مَدْخَلٌ باللَّيل، ومَدْخَلٌ بالنَّهار"۔ یعنی میں دو اوقات میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا جایا کرتا تھا۔ پہلا وقت دن کا اور دوسرا رات کا۔ "فكنت إذا دَخَلْتُ بالليل تَنَحْنَحَ لِي"۔ (جب میں رات کو آتا تو آپ مجھے اجازت دینے کے لئے کھنکار دیتے تھے۔) اور روایت میں ہے کہ: "میں جب آپ ﷺ کے پاس آتا اور آپ ﷺ نماز میں ہوتے تو کھنکھار دیا کرتے تھے۔" مسند احمد کی روایت میں ہے کہ: اگر آپ ﷺ نماز میں ہوتےتو سبحان اللہ کہتے اور اگر نماز میں نہ ہوتے تو پھر مجھے اجازت دے دیتے۔ مراد یہ کہ جب میں نبی ﷺ کے پاس رات کو آنا چاہتا اور آپ ﷺ نماز پڑھ رہے ہوتے اور میں آپ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کرتا تو اندر آجانے کی اجازت کی علامت یہ ہوتی کہ آپ ﷺ میرے لئے کھنکھار دیتے۔ دوسری روایت کے مطابق آپ ﷺ اگر نماز میں ہوتے تو "سبحان اللہ" کہتے اور اگر نمازمیں نہ ہوتے تو مجھے صراحتا اجازت دے دیتے۔علی - رضی اللہ عنہ - کے نبی ﷺ کے ساتھ مضبوط رشتہ کی وجہ سے ایک خاص قسم کا تعلق تھا۔ وہ آپ ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے، آپ ﷺ کی بیٹی کے شوہر تھے، اور آپ ﷺ کے خاص الخاص صحابہ میں سے اور ان میں سے بھی آپ ﷺ کے سب سے زیادہ قریب تھے۔ اس لیے کہ انہیں یہ خصوصیت حاصل تھی کہ وہ رات دن نبی ﷺ کے پاس آتے جاتے رہتے تھے۔ دونوں روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ کیوں کہ جس روایت میں سبحان اللہ کہنے کا ذکر ہے وہ صحیح ہے اور جس میں کھنکھارنے کا ذکر ہے وہ ضعیف ہے۔ جب کہ دن میں ہو سکتا ہے کہ معاملہ بالکل برعکس ہوتا ہو جیسا کہ مفہوم مخالف کا تقاضا ہے یعنی (یہ مراد ہو کہ): جب میں دن کے وقت آتا تو آپ ﷺ کھنکھارتے۔ تاہم دیگر معانی کا بھی احتمال موجود ہے۔