العظيم
كلمة (عظيم) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعيل) وتعني اتصاف الشيء...
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے اور وہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے تو انھوں نے اس کی طرف غور سے دیکھنا شروع کر دیا۔ تو انھوں نے کہا میں شعر پڑھا کرتا تھا اور اس (مسجد) میں وہ (رسول اللہﷺ) موجود ہوتے تھے جو آپ (یعنی عمر رضی اللہ عنہ) سے بہتر ہیں۔ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم نے رسول اللہ ﷺ سے یہ فرماتے ہوئے سنا تھاکہ: ’’میری طرف سے جواب دو اور اے اللہ! روح القدس کے ذریعے اس کی مدد فرما‘؟ تو انھوں نے کہا: اے اللہ تو (گواہ رہنا) ہاں۔ (میں نے سنا تھا)۔
حدیث کا مفہوم: حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ مسجد میں شعر پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی وہاں پہنچ گیے اور ان کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا۔ جب حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے ان کو اس طرح دیکھا تو ان سے کہا کہ: میں مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا اور اس وقت مسجد میں وہ موجود ہوتے تھے جو آپ سے بہتر ہیں(یعنی رسول اللہﷺ)۔ "استشهد أبا هريرة" (پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے گواہی طلب کی) یعنی ان سے گواہی دینے کا سوال کیا کہ جو وہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں ان کے شعر پڑھنے کے حوالے سے جانتے تھے اور رسو ل اللہ ﷺ نے اس کو برقرار رکھا اور ان کی شعر گوئی پر حوصلہ افزائی فرمائی تھی۔فرمایا: "أَنشُدَك الله" (تجھے اللہ کی قسم) یعنی میں اللہ کی قسم اور اس کا حلف دے کر پوچھتا ہوں: کیا تو نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’اے حسان!رسول اللہﷺ کی طرف سے جواب دو‘‘، یعنی مشرکین کے شعراء کو اپنے شعروں سے جواب دو اور نبی کریمﷺ کا دفاع اور اس کے دین کی مدد کرتے ہوئے ان کی ہجو بیان کرو۔ اور کیا تم نے یہ فرماتے ہوئے بھی سنا تھا: "اللهم أيده بروح القدس" (اے اللہ ! روح القدس کے ذریعے ان کی مدد فرما) یعنی جبریل علیہ السلام کی قوت کے ساتھ۔ جبریل علیہ السلام ان کو شعر الہام کرتے جو کہ دشمنان اسلام پر تیروں کی طرح لگتے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’ہاں۔ یعنی میں نے تمھیں رسول اللہ ﷺ کے سامنے مسجد میں شعر پڑھتے ہوئے بھی سنا اور میں نے (رسولﷺ کو) یہ فرماتے ہوئے بھی سنا ہے۔‘‘