الحفيظ
الحفظُ في اللغة هو مراعاةُ الشيء، والاعتناءُ به، و(الحفيظ) اسمٌ...
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ ہمیں صبح کی نماز میں پڑھنے کے لیے دعائے قنوت سکھایا کرتےتھے: ''اللهم اهدني فيمن هديت، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وبارك لي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وإنه لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، وَلَا يَعِزُّ مَنْ عَادَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ''۔ ترجمہ: ’’اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں (شامل کرکے) ہدایت دے جنھیں تو نے ہدایت بخشی، مجھے ان لوگوں میں (شامل کرکے) عافیت عطا فرما جن کو تو نے عافیت عطا کی، اور میری نگرانی فرما ان لوگوں میں (شامل کرکے) جن کا تو نگراں بنا اور جو تو نے دیا ہے اس میں میرے لیے برکت عطا فرما اور جس کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس کی برائی سے مجھے بچا، اس لیے کہ تو ہی فیصلہ کرتا ہے، تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا اور تو جس سے دوستی کرے وہ ذلیل نہیں ہو سکتا۔ اور تو جس سے دشمنی کرے وہ عزت نہیں پا سکتا۔ اے ہمارے رب! تو برکت والا اور بلند و بالا ہے۔‘‘
رسول اللہ ﷺ کی طرف سے صحابہ کو بطور تعلیم جو جامع دعائیں تحفے میں دی گئیں ان میں سے ایک دعائے قنوت ہے جس کو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا ہے۔ حدیث کے ضعیف ہونے کی وجہ سے نماز فجر میں اس کا التزام مشروع نہیں ہے لیکن اس کے الفاظ کے معانی کی معرفت حاصل کرنے میں کوئی مانع نہیں: ’’في القنوت‘‘ (قنوت میں)۔ قنوت کا کئی معانی پر اطلاق ہوتا ہے جب کہ یہاں پر مخصوص حالت قیام میں دعا کرنا مراد ہے۔ ’’اللهم اهدني‘‘ (یا اللہ مجھے ہدایت دے)۔ یعنی مجھے ہدایت پر ثابت قدم فرما، یا مزید اسبابِ ہدایت عطا فرما۔ ’’فيمن هديت‘‘ (ان لوگوں میں شامل کرکے جنھیں تو نے ہدایت دی) یعنی جن کو ہدایت سے سرفراز کیا، یا ان لوگوں کے ساتھ جن کو تونے ہدایت دی انبیاء اور اولیاء کے ساتھ۔ یہ قول: ’’وعافني‘‘ (مجھے عافیت عطا فرما) یعنی ہمارے ساتھ ایسی عافیت کا معاملہ فرما جس سے برائی دور رہے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ قول کہ: (وتولني) (تو میرا نگراں بن جا)یعنی میرے معاملے کا والی بن جا اور اس کی اصلاح فرما دے۔ ’’فيمن توليت‘‘ (جن کا تو والی ونگراں بنا ہے) یعنی جن کےمعاملات کا تو والی بن گیا ہے اور مجھے میرے بھروسے پر نہ چھوڑنا۔ ’’و بارك‘‘ (اور برکت دے) یعنی خیر کثیر سے نواز۔ ’’لي‘‘ (میرے لیے) یعنی جو میرے لیے نفع مند ہو۔ ’’فيما أعطيت‘‘ (جو تو نے مجھے عطا کیا) یعنی جو کچھ بھی تو نے مجھے عمر، مال، علم اور اعمال کی شکل میں عنایت کیا ہے۔اس کا یہ بھی معنی ہے کہ دنیا و آخرت میں جو کچھ تو عطا کرے اس میں برکت پیدا فرما دے۔ ’’وقني‘‘ (مجھے بچا لے)یعنی مجھے محفوظ فرما دے۔ ’’شر ما قضيت‘‘ (اس شر سے جس کا تونے فیصلہ کر لیا ہے) یعنی جس شر کا تو نے فیصلہ کر لیا اور اسے میرے حق میں مقدر کر دیا ہے۔ ’’ تقضي‘‘ (تیرا فیصلہ) یعنی جس کو تو مقدر کر دے یا اپنے جس ارادے کا حکم دے دے۔ ’’ولا يُقْضَى عليك‘‘ (تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا) یعنی تیرے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی تیرے حکم کا پیچھا کیا جا سکتا ہے۔ تجھ پر کوئی چیز واجب نہیں ہاں اگر تو خود اپنے وعدے کے مطابق اپنے اوپر کوئی چیز کو لازم کر لے۔ ’’إنه‘‘ (بے شک وہ) یعنی اس کی شان۔اور بعض روایات میں واؤ کے اضافہ کے ساتھ (وإنه) ہے۔ ’’لا يذِلُّ’’ (ذلیل نہیں) یعنی وہ ذلیل ورسوا نہیں ہو سکتا۔ ’’من واليت‘‘ (جس کو تو دوست بنا لے)۔ موالات (دوستی) معادات (دشمنی) کی ضد ہوتی ہے۔ یہ ’’جس سے تیری دشمنی ہوجائے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا‘‘ کے مقابلے کے طور پر ہے، جیسا کہ بعض روایات میں موجود ہے۔ امام بیہقی نے اضافہ کیا ہے بعینہ طبرانی میں کئی طرق سے وارد ہے۔ "ولا يعز من عاديت" (وہ عزت نہیں پا سکتا جس سے تو دشمنی کرلے)۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جس کو تو نے اپنا دوست بنا لیا ہے ان کو آخرت میں تو ذلیل نہیں کرے گا۔ یا پھر مطلقاً ذلت سے مراد وہ آمازئشیں ہیں جن کا ظاہری طور پر (اللہ کے وہ بندے) شکار ہوئے اور ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کیا جنھوں نے ان کو ظاہری طور پر ذلیل و رسوا کیا۔ کیوں کہ آخر کار رفعت و عزت اللہ کے نزدیک اس کے اولیاء کی ہی ہے لوگوں کے یہاں کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اسی لیے انبیاء کرام علیہم السلام عجیب و غریب آزمائشوں کا شکار ہوئے (اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دنیا میں ذلیل ہوئے)۔ اور وہ شخص جس سے تو دشمنی کرے وہ عزت نہیں پا سکتا آخرت میں یا مطلق طور پر، چاہے اس کو دنیا کی نعمتیں اور بادشاہت بھی مل جائے، کیونکہ وہ تیرے حکم کےتابع نہیں اور تیرےمنع کردہ امور سے اجتناب نہیں کرتا۔ پھر یہ حدیث اس قول کے ساتھ ختم ہوتی ہے ’’تباركت‘‘ (تو بابرکت ہے) یعنی دنیا و آخرت میں خیرِ کثیر تیرے پاس ہی ہے۔ ’’ربَّنا‘‘ (ہمارے رب) یعنی اے ہمارے رب! ’’وتعاليت‘‘ (تو بلند ہے) یعنی تو اپنی عظمت کے اعتبار سے عظیم تر ہے اور کونین کے اندر رہنے والوں میں تیری قدرت اور قہر کا دبدبہ وغلغلہ ہے۔