الإله
(الإله) اسمٌ من أسماء الله تعالى؛ يعني استحقاقَه جل وعلا...
ابو الفضل عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیں جو میں اللہ سے مانگوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے عافیت طلب کرو۔ میں کچھ دن رُک کر پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور گزارش کی کہ: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیں جو میں اللہ سے مانگوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عباس! اے اللہ کے رسول کے چچا! اللہ سے دنیا اور آخرت کی عافیت مانگو۔
یہ حدیث نبی ﷺ کے جوامع الکلم میں سے ہے۔ یہ بہت ہی چھوٹا اور مختصر لیکن انتہائی گہرے معنی کا حامل جملہ ہے جو دنیا و آخرت کی بھلائی کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ 'شيئاً' کے لفظ کے نکرہ ہونے میں عظمت کا معنی پایا جاتا ہے۔ کیونکہ عباس رضی اللہ عنہ ایسے ہلکی سے قولی بات چاہتے تھے جس میں کوئی مشقت نہ ہو تاہم اس کا اجر بہت زیادہ ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے عافیت طلب کرو۔عافیت کو کسی شے سے مقید نہ کرنے کی وجہ سے یہ عام عافیت بن جاتی ہے جس سے یہ لازم آتا ہے کہ ہر دنیوی اور اخروی شر سے سلامتی طلب کی جائے۔