العفو
كلمة (عفو) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعول) وتعني الاتصاف بصفة...
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے ’’ اللهم إني أسألك مُوجِبَاتِ رحمتك، وعَزَائِمَ مغفرتك، والسلامة من كل إثم، والغَنِيمَةَ من كل بِرٍّ، والفوز بالجنة، والنَّجَاةَ من النار‘‘۔ ترجمہ: ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں تیری رحمت کو واجب کرنے والی چیزوں کا اور ان اسباب کا جو تیری مغفرت کو (میرے لیے) لازمی بنا دیں اور ہر گناہ سے سلامتی کا، ہر نیکی سے فائدہ اٹھانے کا، اور جنت سے بہرہ ور ہونے کا نیز دوزخ سے نجات پانے کا‘‘۔
یہ دعا ان جامع کلمات میں سے ہے جو سید الاولین و الآخرین ﷺ کو عطا ہوئے۔ آپ ﷺ نے پہلے تو یہ دعا کی کہ اللہ آپ ﷺ کو وہ اقوال و افعال اور خصلتیں دے جو اس کی رحمت کا موجب بنتی ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی کہ وہ آپ ﷺ کو عملی و قولی نیکی کا ارادہ عطا فرمائے جو آپ ﷺ کی مغفرت کا سبب بنے۔ چونکہ انسان اپنے گناہوں کے بخشے جانے کے بعد بھی دیگر معصیتوں اور نئے گناہوں سے مامون نہیں ہوتا اس لیے آپ ﷺ نے اللہ سے ہر قسم کی برائیوں اور گناہوں سے سلامتی و حفاظت کا سوال کیا چاہے وہ کچھ بھی ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے ان نیک اعمال کا سوال کیا جو بندگی کی تکمیل کا باعث ہوں۔ انہی میں سے ایک عمل ہر قسم کی نیکیوں کی توفیق کا دیا جانا ہے۔ اس سے مراد ہر قسم کی اطاعت ہے۔ پھر آپ ﷺ نے اپنی دعا اور درخواست کا اختتام اس شے سے کیا جو آخرت میں سب سے زیادہ مطلوب ہے یعنی جنت اور آپ ﷺ نے آخرت میں سے سب سے زیادہ خوفناک شے سے سلامتی اور نجات طلب کی یعنی دوزخ سے۔ العیاذ باللہ۔