الكريم
كلمة (الكريم) في اللغة صفة مشبهة على وزن (فعيل)، وتعني: كثير...
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! جانیں لاغر و کمزور ہو چکیں، اہل و عیال بھوکے بیٹھے ہیں اور مال مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اپنے رب سے ہمارے لیے بارش کی دعا کیجیے۔ ہم آپ کی خدمت میں اللہ کو سفارشی بناتے ہیں اور آپ کو اللہ کے حضور سفارشی بناتے ہیں۔ اس پر نبی ﷺنے فرمایا: سبحان اللہ! سبحان اللہ! آپ ﷺ تسبیح بیان کرتے رہے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے اس انداز سے آپ ﷺ کے صحابہ کے چہروں پر پریشانی کے آثار ظاہر ہو گئے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”تیرا ناس ہو، کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کی عظمت وجلالت کیا ہے؟ اللہ کی شان تو اس سے کہیں عظیم تر ہے۔ اللہ کو کسی کے لیے سفارشی نہیں بنایا جاتا...“
یہ صحابی بیان کر رہے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر لوگوں کی حالت زار پر شکایت کناں ہوا کہ انھیں بارش کی کس قدر ضرورت ہے۔ اس نے نبی ﷺ سے درخواست کی کہ آپ ﷺ اپنے رب سے ان پر بارش برسانے کی دعا کریں۔ تاہم وہ اس بے ادبی کا مرتکب ہوا کہ اس نے نبی ﷺ کی خدمت میں اللہ کو سفارشی بنایا، جو کہ اس کے اللہ کی ذات سے ناواقف ہونے کی بنا پر تھا۔ کیوں کہ سفارش ادنی کی طرف سے اعلی کی خدمت میں ہوتی ہے۔ اس لیے نبی ﷺ نے اس کی اس بات پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور اس نقص سے اللہ کی پاکیزگی بیان کی۔ تاہم اس کے اللہ کے حضور نبی ﷺ کو سفارشی بنانے اور آپ ﷺ سے دعا کی درخواست کو آپ ﷺ نے ناپسند نہیں فرمایا۔