الفتاح
كلمة (الفتّاح) في اللغة صيغة مبالغة على وزن (فعّال) من الفعل...
ابو موسی عبد اللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے (بوقتِ مصیبت) بین کرنے والی، سر منڈانے والی اور گریبان چاک کرنے والی عورتوں سے برأت کا اظہار فرمایا ہے۔
اللہ جو چیز لے لے وہ بھی اسی کی ہے اور جو چیز دے دے وہ بھی اسی کی ہے۔ اس میں حکمت تامہ اور مبنی بر حق تصرف ہوتا ہے۔جو شخص اس کی مخالفت کرتا ہے یا اس میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی قضاء و قدر پر نکتہ چینی کرتاہے جو کہ عین مصلحت و حکمت اور عدل و راستگی پر مبنی ہوتی ہے۔ اسی لیے نبی ﷺ نے بیان فرمایا کہ جو شخص اللہ کے فیصلے پر ناپسندیدگی اور مایوسی کا اظہار کرتا ہے وہ آپ ﷺ کے پسندیدہ طریقے اور مطلوبہ سنت پرقائم نہیں کیونکہ وہ بھٹک کر ان لوگوں کی راہ لے لیتا ہے جنھیں جب کوئی برائی لاحق ہوتی ہے تو جزع فزع شروع کر دیتے ہیں اور حواس باختہ ہو جاتے ہیں کیوں کہ وہ پوری طرح اس دنیوی زندگی سے دل لگا چکے ہوتے ہیں اور اپنی مصیبت پر صبر کرنے پر اللہ کے ثواب اور خوشنودی کی انھیں کوئی امیدنہیں ہوتی۔ چنانچہ نبی ﷺ ان تمام لوگوں سے بری ہیں جن کا ایمان کمزور ہو اور وہ مصیبت کے دھچکے کو برداشت نہ کر پائیں اور اس کی وجہ سے دلی یا قولی طور پر ناپسندیدگی کا اظہار کرنے لگیں مثلاً نوحہ کرنا، مردے کے محاسن بیان کرکے رونا چلانا، ہلاکت اور مرجانے کی دعائیں کرنا یا پھر عملی طور پر ناراضگی کا اظہا کرنے لگیں جیسے زمانۂ جاہلیت کی طرز پر بالوں کو نوچنا اورگریبان چاک کر نا۔ اللہ کے اولیاء تو وہ لوگ ہیں جن پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اللہ کی قضاء کو تسلیم کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ إِنَّا لله وإِنا إليه رَاجعُونَ. أولئِكَ عَلَيهِم صَلَوات مِنْ رَبِّهِم وَرَحمَة وَأولئِكَ هُمُ المُهتدُونَ‘‘(سورہ البقرہ: 156-157) کہ ہم تو الله کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جاناہے۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے مہربانیاں اور رحمت ہے اور یہی ہدایت پانے والے ہیں۔