العالم
كلمة (عالم) في اللغة اسم فاعل من الفعل (عَلِمَ يَعلَمُ) والعلم...
عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: نبی ﷺ کے ہاں ایک بڑا پیالہ تھا جس کو چار آدمی اٹھاتے تھے۔ اس کو " غراء" کہا جاتا تھا۔ جب چاشت کا وقت ہو جاتا اور لوگ چاشت کی نماز پڑھ لیتےتو وہ پیالہ لایا گیا۔ یعنی اس میں ثرید تیار کیا گیا تھا۔لوگ اس کے گرد بیٹھ گئے یہاں تک کہ جب ان کی تعداد زیادہ ہو گئی (اور بیٹھنے کی جگہ تنگ ہو گئی) تو آپ ﷺ دو زانو بیٹھ گئے۔ ایک دیہاتی نے کہا کہ: یہ کیسے بیٹھے ہیں؟ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تواضع و انکساری کرنے والا بنایا ہے، متکبر اور سرکش نہیں بنایا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کے کناروں سے کھاؤ اس کی بلندی (درمیانی حصے) کو چھوڑ دو، تمہارے لیے اس میں برکت رکھ دی جائے گی۔
نبی ﷺ کے پاس ایک کھانے کا برتن تھا جسے ''غراء'' کہا جاتا تھا۔ اسے چار آدمی مل کر اٹھاتے تھے۔ جب چاشت کا وقت ہو جاتا اور انہوں نے چاشت کی نماز پڑھ لی تو اس برتن کو لایا گیا اور روٹی کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس میں ڈال دیا گیا۔ وہ سب اس برتن کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ جب ان کی تعداد زیادہ ہو گئی اور بیٹھنے کا حلقہ ان کے لیے تنگ پڑ گیا تو نبی ﷺ اپنے بھائیوں کے لیے کشادگی پیدا کرنے کے لیے اپنے گھٹنوں کے بل اور اپنے پاؤں کی پشت پر بیٹھ گئے۔ حاضرین میں سے ایک اعرابی نے کہا: یا رسول اللہ! یہ کیسے بیٹھنا ہوا! (ایسا اس نے اس لیے پوچھا) کیونکہ یہ بیٹھنے کا بہت ہی متواضع انداز تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ نے مجھے نبوت و علم عطا فرما کر متواضع بندہ بنایا ہے اور مجھے متکبر اور سرکش نہیں بنایا۔ نبی ﷺ نہ تو متکبر تھے اور نہ ظالم۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: برتن کے کناروں سے کھاؤ اور اس کی چوٹی (درمیانی حصہ) کو چھوڑ دو، اس میں برکت ہو جائے گی۔ نبی ﷺ نے برتن کے کناروں سے کھانے اور اس کے بلند حصے کو چھوڑ رکھنے کا حکم دیا اور وضاحت فرمائی کہ یہ کھانے میں برکت پیدا ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔