النصير
كلمة (النصير) في اللغة (فعيل) بمعنى (فاعل) أي الناصر، ومعناه العون...
ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کی نماز ادا کی اور پھر میرے گھر تشریف لائے اور دو رکعتیں پڑھیں۔ میں نے پوچھا یارسول اللہ! آپ نے ایسی نماز پڑھی ہے جسے آپ (پہلے) نہیں پڑھا کرتے تھے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’میرے پاس کچھ مال آیا جس میں مصروف ہونے کی وجہ سے میں وہ دو رکعت نہ پڑھ سکا جو میں نمازِ ظہر کے بعد پڑھا کرتا تھا۔ چنانچہ انہیں میں نے اب پڑھا ہے‘‘۔
اُمُّ المومنین اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کو ان دو رکعتوں پر اشکال ہوا جو آپ ﷺ نے خلافِ معمول عصر کے بعد پڑھی تھیں۔ چنانچہ انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ایسی نماز پڑھی ہے جو آپ پہلے نہیں پڑھا کرتے تھے؟۔ اس پر آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ یہ دو رکعتیں ان دو رکعتوں کی قضا ہیں جنہیں وہ بوجہ مصروفیت نمازِ ظہر کے بعد نہیں پڑھ سکے تھے، کیونکہ آپ ﷺ کے پاس کچھ مال آیا تھا جس میں آپ ﷺ مصروف تھے۔ کچھ روایات میں آتا ہے کہ آپ ﷺ کچھ لوگوں کے وفد میں مشغول رہے جو آپ ﷺ کے پاس آیا تھا۔ یہ عبدالقیس کا وفد تھا۔ حدیث کا اس قدر حصہ تو صحیح ہے جو دوسری صحیح روایات میں بھی آیا ہے۔ پھر ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے ایک اور سوال کیا کہ اگر یہ دو رکعت ہم سے چھوٹ جائیں تو کیا ہم انہیں قضا کریں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ یعنی تم اس وقت انہیں قضا نہ کرو۔ کیونکہ یہ ایسا وقت ہے جس میں نفل پڑھنے کی ممانعت ہے۔ یہ حصہ ضعیف ہے۔ تاہم عصر کی نماز کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت بہت سے صحیح احادیث میں آئی ہے۔ چنانچہ عصر کی نماز کے بعد قضا کرنا آپ ﷺ کی خصوصیت رہے گا۔ یہ حکم نمازِ عصر کے ساتھ خاص ہے۔ جب کہ فجر کی نماز کی سنتوں کو قضا کرنے کی امت کو بھی اجازت ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے فجر کی نماز کے بعد ایک شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے اس سے اس کے بارے میں پوچھا۔ اس نے بتایا کہ وہ فجر کی سنتوں کی قضا پڑھ رہا تھا۔ آپ ﷺ نے اس کے اس فعل کی تائید فرمائی۔ تاہم اس کے علاوہ دیگر نوافل کو فجر کے بعد پڑھنے کی ممانعت ہے۔