البر
البِرُّ في اللغة معناه الإحسان، و(البَرُّ) صفةٌ منه، وهو اسمٌ من...
قرآن اور حدیث میں مذکور بروزِ قیامت حقیقی میزان کے وجود کی پختہ تصدیق کرنا جس کے اعمال، دفترِ اعمال اور اشخاص کو وزن کرنے کے لیے دو پلڑے ہیں۔
’میزان‘ پر ایمان رکھنا یومِ آخرت پر ایمان لانے میں شامل ہے جس کے بارے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور رسول اللہﷺ نے اپنی سنت میں خبر دی ہے۔ میزان پر ایمان لانے سے مراد یہ ہے کہ اس بات کا اعتقاد رکھا جائے اورقطعی طور پر اقرار کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ روزِ قیامت ان لوگوں کے اعمال کی مقدار کو ظاہر کرنے کے لیے جن کا وہ حساب لے گا ایک حقیقی ’میزان‘(ترازو) نصب کرے گا۔ چنانچہ اس کے ذریعے اعمال، نامۂ اعمال اور اشخاص کا وزن کیا جائے گا۔ اس ’میزان‘ کی کچھ صفات ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں: 1. یہ عدل و انصاف کا میزان ہوگا۔ 2. ہر میزان کا ایک کانٹا اور دو محسوس ہونے والے اور دکھائی دینے والے پلڑے ہوں گے۔ ایک پلڑے میں نیکیاں رکھی جائیں گی اور دوسرے میں برائیاں۔ چنانچہ جس کا بھلائیوں والا پلڑا بھاری ہوگیا وہ کامیاب ہوجائے گا اور جنت سے سرفراز ہوگا اور جس کا برائیوں کا پلڑا بھاری ہوگیا وہ اللہ کے عذاب کا سامنا کرے گا۔ اور جس کی نیکیاں اور برائیاں برابر نکلیں گی وہ اصحاب اعراف میں سے ہوگا جنہیں پل صراط پر روک لیا جائےگا۔ 3. بندے کے عمل کے اعتبار سے میزان کو کبھی بھاری اور کبھی ہلکا کہا جاتا ہے، جو میزان بھاری ہوگا وہ نیچے ہوجائے گا اور جو ہلکا ہوگا وہ اوپر اٹھ جائے گا۔