التيمم
ابن عباس رضی اللہ عنہما اللہ عزّوجل کے فرمان: (وإن كنتم مرضى أو على سفر) کی تفسیر میں فرماتے ہیں: جب آدمی کو جہاد فی سبیل اللہ میں زخم لگے ہوں، پھوڑے پھنسیاں نکلی ہوں یا چیچک کا مرض لاحق ہو، پھر وہ جنبی ہوجائے اور اسے اندیشہ ہو کہ اگراس نے غسل کیا تو مرجائے گا، تو وہ تیمّم کرلے۔  
عن ابن عباس -رضي الله عنهما- في قوله -عز وجل-: (وإن كنتم مرضى أو على سفر)، قال: «إِذَا كَانَتْ بِالرَّجُلِ الْجِرَاحَةُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوِ الْقُرُوحُ أَوِ الْجُدَرِيُّ فَيُجْنِبُ فَيَخَافُ أَنْ يَمُوتَ إِنِ اغْتَسَلَ، يَتَيَمَّمُ».

شرح الحديث :


یہ اثر اللہ عز و جل کے فرمان:{وإن كنتم مرضى أو على سفر}[المائدة: 6] کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (إذا كانت بالرجل الجراحة في سبيل الله) یعنی جہاد کی وجہ سے، یا پھر (القروح) یعنی پھوڑے پھنسیاں ہوں۔ یہ قرح کی جمع ہے۔ اس سے مراد وہ پھوڑے پھنسیان ہیں، جو جسم میں نکلتی ہیں، جیسے چیچک وغیرہ۔ جس کی یہ حالت ہو اور پھر وہ(فيجنب) جنبی ہو جائے۔ (فيخاف) یعنی وہ گمان رکھے کہ (أن يموت إن اغتسل)غسل کرنے سے موت ہوجائے گی۔ یعنی جس شخص کی یہ حالت ہو، اس کے لیے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رخصت دی کہ وہ تیمم کر لے۔ اس اثر میں جنبی کے لیے، موت کا اندیشہ ہو نے کی صورت میں، تیمم کی مشروعیت کی دلیل ہے۔ البتہ اگر اسے صرف ضرر پہچنے کا اندیشہ ہو، تو یہ آیت اس کے لیے تیمم کے مباح ہونے کی دلیل ہے:{وإن كنتم مرضى}[المائدة: 6]۔ ابن عباس رضی اللہ نے حدیث میں مذکور جن اشیا سے تفسیر کی ہے، یعنی جہاد فی سبیل اللہ اور پھوڑے وغیرہ تو ان کا ذکر بغرض حصر نہیں ہے، بلکہ یہ بطور مثال ہے۔ ورنہ ہر وہ مریض جس کے لیے پانی نقصان دہ ہو، اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہے؛ اگرچہ پانی کے استعمال سے اس کی موت واقع نہ بھی ہو۔ اگر اسے خوف ہو کہ زخم خراب ہو جائے گا، زیادہ ہو جائے گا، اس کی وجہ سے اس کے درست ہونے میں دیر لگے گی، اس سے مرض کی مدت لمبی ہو جائے گی یا اس طرح کی کوئی اور بات ہو، تو ان صورتوں میں اس کے لیے تیمم کرنا جائز ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان عام ہے: {وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى} [المائدة:6] اس کے ساتھ ساتھ اس اثر کے ضعیف ہونے کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔  

ترجمة نص هذا الحديث متوفرة باللغات التالية