المولى
كلمة (المولى) في اللغة اسم مكان على وزن (مَفْعَل) أي محل الولاية...
ان کے ایمان نہ ﻻنے پر شاید آپ تو اپنی جان کھودیں گے.*
اگر ہم چاہتے تو ان پر آسمان سے کوئی ایسی نشانی اتارتے کہ جس کے سامنے ان کی گردنیں خم ہو جاتیں.*
اور ان کے پاس رحمٰن کی طرف سے جو بھی نئی نصیحت آئی یہ اس سے روگردانی کرنے والے بن گئے.
ان لوگوں نے جھٹلایا ہے اب ان کے پاس جلدی سے اس کی خبریں آجائیں گی جس کے ساتھ وه مسخرا پن کر رہے ہیں.*
کیا انہوں نے زمین پر نظریں نہیں ڈالیں؟ کہ ہم نے اس میں ہر طرح کے نفیس جوڑے کس قدر اگائے ہیں؟*
بے شک اس میں یقیناً نشانی ہے* اور ان میں کے اکثر لوگ مومن نہیں ہیں.*
اور جب آپ کے رب نے موسیٰ (علیہ السلام) کو آواز دی کہ تو ﻇالم قوم کے پاس جا.*
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا میرے پروردگار! مجھے تو خوف ہے کہ کہیں وه مجھے جھٹلا (نہ) دیں.
اور میرا سینہ تنگ ہو رہا ہے* میری زبان چل نہیں رہی** پس تو ہارون کی طرف بھی وحی بھیج.***
اور ان کا مجھ پر میرے ایک قصور کا (دعویٰ) بھی ہے مجھے ڈر ہے کہ کہیں وه مجھے مار نہ ڈالیں.*
جناب باری نے فرمایا! ہرگز ایسا نہ ہوگا، تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ* ہم خود سننے والے تمہارے ساتھ ہیں.*
تم دونوں فرعون کے پاس جاکر کہو کہ بلاشبہ ہم رب العالمین کے بھیجے ہوئے ہیں.
فرعون نے کہا کہ کیا ہم نے تجھے تیرے بچپن کے زمانہ میں اپنے ہاں نہیں پاﻻ تھا؟* اور تو نے اپنی عمر کے بہت سے سال ہم میں نہیں گزارے؟**
پھر تو اپنا وه کام کر گیا جو کر گیا اور تو ناشکروں میں ہے.*
(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میں نے اس کام کو اس وقت کیا تھا جبکہ میں راه بھولے ہوئے لوگوں میں سے تھا.*
پھر تم سے خوف کھا کر میں تم میں سے بھاگ گیا، پھر مجھے میرے رب نے حکم و علم عطا فرمایا اور مجھے اپنے پیغمبروں میں سے کر دیا.*
مجھ پر تیرا کیا یہی وه احسان ہے؟ جسے تو جتا رہا ہے جبکہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے.*
(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وه آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم یقین رکھنے والے ہو.
فرعون نے اپنے اردگرد والوں سے کہا کہ کیا تم سن نہیں رہے؟*
(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا وه تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادوں کا پروردگار ہے.
فرعون نے کہا (لوگو!) تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے یہ تو یقیناً دیوانہ ہے.
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا! وہی مشرق ومغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب* ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو.
فرعون کہنے لگا سن لے! اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں ڈال دوں گا.*
موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگرچہ میں تیرے پاس کوئی کھلی چیز لے آؤں؟*
فرعون نے کہا اگر تو سچوں میں سے ہے تو اسے پیش کر.
آپ نے (اسی وقت) اپنی ﻻٹھی ڈال دی جو اچانک کھلم کھلا (زبردست) اﮊدہا بن گئی.*
اور اپنا ہاتھ کھینچ نکالا تو وه بھی اسی وقت ہر دیکھنے والے کو سفید چمکیلا نظر آنے لگا.*
فرعون اپنے آس پاس کے سرداروں سے کہنے لگا بھئی یہ تو کوئی بڑا دانا جادوگر ہے.*
یہ تو چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تمہیں تمہاری سر زمین سے ہی نکال دے، بتاؤ اب تم کیا حکم دیتے ہو.*
ان سب نے کہا آپ اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دیجئے اور تمام شہروں میں ہرکارے بھیج دیجئے.
پھر ایک مقرر دن کے وعدے پر تمام جادوگر جمع کیے گئے.*
اور عام لوگوں سے بھی کہہ دیا گیا کہ تم بھی مجمع میں حاضر ہوجاؤ گے؟*
تاکہ اگر جادوگر غالب آجائیں تو ہم ان ہی کی پیروی کریں.
جادوگر آکر فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ہم جیت گئے تو ہمیں کچھ انعام بھی ملے گا؟
فرعون نے کہا ہاں! (بڑی خوشی سے) بلکہ ایسی صورت میں تم میرے خاص درباری بن جاؤ گے.
(حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں سے فرمایا جو کچھ تمہیں ڈالنا ہے ڈال دو.*
انہوں نے اپنی رسیاں اور ﻻٹھیاں ڈال دیں اور کہنے لگے عزت فرعون کی قسم! ہم یقیناً غالب ہی رہیں گے.*
اب (حضرت) موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی ﻻٹھی میدان میں ڈال دی جس نے اسی وقت ان کے جھوٹ موٹ کے کرتب کو نگلنا شروع کردیا.
اورانہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم تو اللہ رب العالمین پر ایمان ﻻئے.
فرعون نے کہا کہ میری اجازت سے پہلے تم اس پر ایمان لے آئے؟ یقیناً یہی تمہارا وه بڑا (سردار) ہے جس نے تم سب کو جادو سکھایا ہے*، سو تمہیں ابھی ابھی معلوم ہوجائے گا، قسم ہے میں ابھی تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے طور پر کاٹ دوں گا اور تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا.**
انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں*، ہم تو اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں ہی.
اس بنا پر کہ ہم سب سے پہلےایمان والے بنے ہیں* ہمیں امید پڑتی ہے کہ ہمارا رب ہماری سب خطائیں معاف فرما دے گا.
اور ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ راتوں رات میرے بندوں کو نکال لے چل تم سب پیچھا کیے جاؤ گے.*
اسی طرح ہوا اور ہم نےان (تمام) چیزوں کا وارث بنی اسرائیل کو بنا دیا.*
پس جب دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا، تو موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا، ہم تو یقیناً پکڑ لیے گئے.*
موسیٰ نے کہا، ہرگز نہیں۔ یقین مانو، میرا رب میرے ساتھ ہے جو ضرور مجھے راه دکھائے گا.*
ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ دریا پر اپنی ﻻٹھی مار*، پس اسی وقت دریا پھٹ گیا اور ہر ایک حصہ پانی کا مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا.**
اور موسیٰ (علیہ السلام) کو اور اس کے تمام ساتھیوں کو نجات دے دی.
یقیناً اس میں بڑی عبرت ہے اور ان میں کےاکثر لوگ ایمان والے نہیں.*
جبکہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟
انہوں نے جواب دیا کہ عبادت کرتے ہیں بتوں کی، ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں.*
آپ نے فرمایا کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا وه سنتے بھی ہیں؟
انہوں نے کہا یہ (ہم کچھ نہیں جانتے) ہم تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے پایا.*
آپ نے فرمایا کچھ خبر بھی* ہے جنہیں تم پوج رہے ہو.
بجز سچے اللہ تعالیٰ کے جو تمام جہان کا پالنہار ہے.*
اور جس سے امید بندھی ہوئی ہے کہ وه روز جزا میں میرے گناہوں کو بخش دے گا.*
اے میرے رب! مجھے قوت فیصلہ* عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں میں ملا دے.
اور میرے باپ کو بخش دے یقیناً وه گمراہوں میں سے تھا.*
لیکن فائده واﻻ وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے.*
اور ان سے پوچھا جائے گا کہ جن کی تم پوجا کرتے رہے وه کہاں ہیں؟
جو اللہ تعالیٰ کے سوا تھے*، کیاوه تمہاری مدد کرتے ہیں؟ یا کوئی بدلہ لے سکتے ہیں.**
پس وه سب اور کل گمراه لوگ جہنم میں اوندھے منھ ڈال دیے جائیں گے.*
اور ہمیں تو سوا ان بدکاروں کے کسی اور نے گمراه نہیں کیا تھا.*
اگر کاش کہ ہمیں ایک مرتبہ پھر جانا ملتا تو ہم پکے سچے مومن بن جاتے.*
یہ ماجرا یقیناً ایک زبردست نشانی ہے* ان میں سے اکثر لوگ ایمان ﻻنے والے نہیں.**
جبکہ ان کے بھائی* نوح (علیہ السلام) نے کہا کہ کیا تمہیں اللہ کا خوف نہیں!
میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا بدلہ تو صرف رب العالمین کے ہاں ہے.*
قوم نے جواب دیا کہ ہم تجھ پر ایمان ﻻئیں! تیری تابعداری تو رذیل لوگوں نے کی ہے.*
آپ نے فرمایا! مجھے کیا خبر کہ وه پہلے کیا کرتے رہے؟*
ان کا حساب تو میرے رب کے ذمہ* ہے اگر تمہیں شعور ہو تو.
انہوں نے کہاکہ اے نوح! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً تجھے سنگسار کردیا جائے گا.
پس تو مجھ میں اور ان میں کوئی قطعی فیصلہ کردے اور مجھے اور میرے با ایمان ساتھیوں کو نجات دے.
چنانچہ ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو بھری ہوئی کشتی میں (سوار کراکر) نجات دے دی.
یقیناً اس میں بہت بڑی عبرت ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ ایمان ﻻنے والے تھے بھی نہیں.
اور بیشک آپ کا پروردگار البتہ وہی ہے زبردست رحم کرنے واﻻ.
جبکہ ان سے ان کے بھائی ہود* نے کہا کہ کیا تم ڈرتے نہیں؟
میں اس پر تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتا، میرا ﺛواب تو تمام جہان کے پروردگار کے پاس ہی ہے.
کیا تم ایک ایک ٹیلے پر بطور کھیل تماشا یادگار (عمارت) بنا رہے ہو.*
اور بڑی صنعت والے (مضبوط محل تعمیر) کر رہے ہو، گویا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو گے.*
اور جب کسی پر ہاتھ، ڈالتے ہو تو سختی اور ﻇلم سے پکڑتے ہو.*
اس سے ڈرو جس نے ان چیزوں سے تمہاری امداد کی جنہیں تم جانتے ہو.
مجھے تو تمہاری نسبت بڑے دن کےعذاب کا اندیشہ ہے.*
انہوں نے کہا کہ آپ وعﻆ کہیں یا وعﻆ کہنے والوں میں نہ ہوں ہم پر یکساں ہے.
چونکہ عادیوں نے حضرت ہود کو جھٹلایا، اس لیے ہم نے انہیں تباه کردیا* یقیناً اس میں نشانی ہے اور ان میں سے اکثر بے ایمان تھے.
ان کے بھائی صالح نے ان سے فرمایا کہ کیا تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟.
میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا، میری اجرت تو بس پرودگار عالم پر ہی ہے.
کیا ان چیزوں میں جو یہاں ہیں تم امن کے ساتھ چھوڑ دیے جاؤ گے.*
اور ان کھیتوں اور ان کھجوروں کے باغوں میں جن کے شگوفے نرم و نازک ہیں.*
اور تم پہاڑوں کو تراش تراش کر پر تکلف مکانات بنا رہے ہو.*
جو ملک میں فساد پھیلا رہے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے.
وه بولے کہ بس تو ان میں سے ہے جن پر جادو کردیا گیا ہے.
تو تو ہم جیسا ہی انسان ہے۔ اگر تو سچوں سے ہے تو کوئی معجزه لے آ.
آپ نے فرمایا یہ ہے اونٹنی، پانی پینے کی ایک باری اس کی اور ایک مقرره دن کی باری پانی پینے کی تمہاری.*
(خبردار!) اسے برائی سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک بڑے بھاری دن کا عذاب تمہاری گرفت کر لے گا.*
پھر بھی انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ ڈالیں*، بس وه پشیمان ہوگئے.**
اور عذاب نے انہیں آ دبوچا*۔ بیشک اس میں عبرت ہے۔ اور ان میں سے اکثر لوگ مومن نہ تھے.
ان سے ان کے بھائی لوط (علیہ السلام) نے کہا کیا تم اللہ کا خوف نہیں رکھتے؟
میں تم سے اس پر کوئی بدلہ نہیں مانگتا میرا اجر تو صرف اللہ تعالیٰ پر ہے جو تمام جہان کا رب ہے.
کیا تم جہان والوں میں سے مردوں کے ساتھ شہوت رانی کرتے ہو.
اور تمہاری جن عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے تمہارا جوڑا بنایا ہے ان کو چھوڑ دیتے ہو*، بلکہ تم ہو ہی حد سے گزر جانے والے.**
انہوں نے جواب دیاکہ اے لوط! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً نکال دیا جائے گا.*
میرے پروردگار! مجھے اور میرے گھرانے کو اس (وبال) سے بچالے جو یہ کرتے ہیں.
اور ہم نے ان پر ایک خاص قسم کا مینہ برسایا، پس بہت ہی برا مینہ تھا جو ڈرائے گئے ہوئے لوگوں پر برسا.*
یہ ماجرا بھی سراسر عبرت ہے۔ ان میں سے بھی اکثر مسلمان نہ تھے.
جبکہ ان سے شعیب (علیہ السلام) نے کہاکہ کیا تمہیں ڈر خوف نہیں؟
میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا، میرا اجر تمام جہانوں کے پالنے والے کے پاس ہے.
ناپ پورا بھرا کرو کم دینے والوں میں شمولیت نہ کرو.*
لوگوں کو ان کی چیزیں کمی سے نہ دو* بے باکی کے ساتھ زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو.**
اس اللہ کا خوف رکھو جس نے خود تمہیں اور اگلی مخلوق کو پیدا کیا ہے.*
انہوں نے کہا تو تو ان میں سے ہے جن پر جادو کردیا جاتا ہے.
اور تو تو ہم ہی جیسا ایک انسان ہے اور ہم تو تجھے جھوٹ بولنے والوں میں سے ہی سمجھتے ہیں.*
اگر تو سچے لوگوں میں سے ہے تو ہم پر آسمان کے ٹکڑے گرادے.*
چونکہ انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں سائبان والے دن کے عذاب نے پکڑ لیا*۔ وه بڑے بھاری دن کا عذاب تھا.
یقیناً اس میں بڑی نشانی ہے اور ان میں کےاکثر مسلمان نہ تھے.
اور یقیناً تیرا پروردگار البتہ وہی ہے غلبے واﻻ مہربانی واﻻ.
اور بیشک و شبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل فرمایا ہوا ہے.
آپ کے دل پر اترا ہے* کہ آپ آگاه کر دینے والوں میں سے ہو جائیں.**
کیا انہیں یہ نشانی کافی نہیں کہ حقانیت قرآن کو تو بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں.*
پس وه ان کے سامنے اس کی تلاوت کرتا تو یہ اسے باور کرنے والے نہ ہوتے.*
اسی طرح ہم نے گناہگاروں کے دلوں میں اس انکار کو داخل کر دیا ہے.*
وه جب تک دردناک عذابوں کو ملاحظہ نہ کرلیں ایمان نہ ﻻئیں گے.
پس وه عذاب ان کو ناگہاں آجائے گا انہیں اس کا شعور بھی نہ ہو گا.
اچھا یہ بھی بتاؤ کہ اگر ہم نے انہیں کئی سال بھی فائده اٹھانے دیا.
تو جو کچھ بھی یہ برتتے رہے اس میں سے کچھ بھی فائده نہ پہنچا سکے گا.*
ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا ہے مگر اسی حال میں کہ اس کے لیے ڈرانے والے تھے.
پس تو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہ پکار کہ تو بھی سزا پانے والوں میں سے ہوجائے.
اس کے ساتھ فروتنی سے پیش آ، جو بھی ایمان ﻻنے واﻻ ہو کر تیری تابعداری کرے.
اگر یہ لوگ تیری نافرمانی کریں تو تو اعلان کردے کہ میں ان کاموں سے بیزار ہوں جو تم کر رہے ہو.
کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں.
(اچٹتی) ہوئی سنی سنائی پہنچا دیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں.*
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں.
سوائے ان کے جو ایمان ﻻئے* اور نیک عمل کیے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اپنی مظلومی کے بعد انتقام لیا**، جنہوں نے ﻇلم کیا ہے وه بھی عنقریب جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں.***